نادر کتابیں اور دستاویزات

میں سارے ہندوستان میں یہی بات سنتا آرہا تھا کہ عربی فارسی کا ذوق اب ختم ہوا۔ ان زبانوں کو سمجھنے والے بھی ختم ہورہے ہیں اور غضب یہ ہے کہ برصغیر کا بیشتر تاریخی ریکارڈ یا تو فارسی میں ہے یا عربی میں۔ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ تاریخ کے اس ورثے سے اب کسی کو دلچسپی نہیں۔ ایسی حوصلہ شکن باتیں سننے کے بعد راجستھان کے ویرانوں کے بیچ عربی اور فارسی کا چشمہ ابلتا دیکھا تو وہی راحت محسوس ہوئی جو طویل مسافت کے بعد کسی نخلستان میں پہنچ کر ہوتی ہے میں تو تصوف کے سیمینار میں آیا تھا لیکن اس روز خود کو چھ ہزار ایسی کتابوں کے درمیان پایا جنہیں دیکھ کر یوں لگا جیسے کوئی علم کی شاہراہ کے چھ ہزار سنگ میل اکھاڑ کر یہاں نذر باغ کی چبوترے والی کوٹھی میں لے آیا ہو پٹنہ کی خدا بخش لائبریری کی طرح یہ بھی بنیادی طورپر قلمی کتابوں کا ذخیرہ ہے اور کتابیں بھی ایسی کہ جو شنہشانوں، شہزادوں اور شہزادیوں کے کتب خانوں میں رہ چکی ہیں۔ کوئی کتاب ہرات سے پہنچی ہے اس پر جامی کی تحریر موجود ہے کوئی کتاب لٹے ہو بغداد سے آئی ہے اس پر دجلہ کے چھینٹے موجود ہیں کسی پر شاہ جہاں کے دستخط ہیں، کسی پر اسکے بیٹے دارا شکوہ کی تحریریں ہیں کہیں بیرم خاں کے بیٹے عبد الرحیم خان خاناں نے چند کلمات لکھے ہیں تو کہیں شاہ ولی اللہ ؒ کی تحریر آنکھوں کے راستے روح میں اتر جاتی ہے۔ اس دور میں ایسے کتب خانے بہت کم ہونگے جو بیک وقت علم کی آماجگاہ بھی ہوں اور زیارت گاہ بھی راجستھان میں بائیس ریاستیں تھیں جن میں ٹونک واحد مسلم ریاست تھی ۸۵۸۱ء میں دلی اور لکھنو اجڑے تو کتنے ہی خاندان برباد ہوئے۔ اہل علم پناہ کی تلاش میں ٹونک پہنچے۔ ہیلے سردار امیر خان کی یہ ریاست دیکھتے دیکھتے علم و حکمت کا گہوارہ بن گئی۔ درس و تدریس کا سلسلہ چلا، جا بجا مدرسے کھلے، ہر گھر میں کتب خانے قائم ہوئے، تصنیف و تالیف کا زور ہوا، اور وسطی ایشیاء ایران  افغانستان، مصر اور خود ہندوستان سے کتابیں کھینچ کھینچ کر ٹونک پہنچنے لگیں۔ سوا سو سال ہونے کو آرہے ہیں جب نواب محمد علی خاں اس ریاست کی مسد پر بیٹھے اور اس کتب خانے کی بنیاد ڈالی جس کا یہ تذکرہ ہے انگریزوں نے انہیں معزول کرکے بنارس بھیجا تو ہ اپنا کتب خانہ ہمراہ لے گئے اور خطا اور سزا سب کو بھول بھال کر وہ ایک عظیم الشان لائبریری بنانے میں مصروف ہوگئے  جب ان کا انتقال ہوا تو فرش پر چنی جانے والی کتابیں چھتوں کو چھو رہی تھیں۔ نواب محمد علی کے صاحبزادے اس شاندار خزانے کو منتقل کرکے ٹونک لے آئے اور جب تک ریاست خوش حال رہی کتب خانے میں اضافہ ہوتا گیا۔ آج اس میں تیس علوم پر تقریباً پندرہ ہزار قلمی کتابیں موجود ہیں جو چھ ہزار جلدوں میں بندھی ہوئی ہیں۔ ان علوم میں تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، فلسفہ، ادبیات، فلکیات، بخوم، طب، ریاضی، تاریخ اور تنقید پر دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔