باپ دادا کی ہڈیاں 

وقت گزرتا ہے تو قدموں کے نشان چھوڑ جاتا ہے کتابیں بھی گزرے وقتوں کی نشانیاں ہیں لیکن کہیں تو یہ نقش پا چراغ بن کر جگمگارہے ہیں اور کہیں مٹ گئے  ہیں بجھ گئے ہیں اور اب وہاں اندھیروں کا بسیرا ہے مشہور مصنف رضا علی عابدی اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ کتابوں کے اس سفر میں اب ہم جن راستوں پر چلیں گے وہ ہمیں خلیج بنگال کے کناروں سے کیرالہ کے ساحلوں تک اور مہاراشٹر کے میدانوں سے راجستھان کے ریگستانوں تک لے جائینگے راہ میں ہیررانجھا اور مرزا صاحباں کی بستیاں بھی پڑیں گی اور آج ہم دیکھیں گے کہ کہاں کہاں کیسی کیسی کتابیں‘ دستاویزیں‘ ریکارڈ اور فرمان دیکھے گئے اور جن میں سے زیادہ ترکے بارے میں اب شاید خدا ہی جانتا ہو گا کہ وہ رہے یا خاک میں ملے میں حیدرآباد دکن میں تھا اردو ریسرچ سنٹر کے محمد عبدالصمد خاں نے مجھے ایک صاحب کے بارے میں بتایا کہنے لگے وہ قاضی صاحب کہلاتے ہیں اور خاندانی قاضی ہیں اورنگ آباد سے تقریباً دو ڈھائی سومیل دور ایک گاؤں ہے جہاں ان کے باپ دادا وغیرہ قاضی تھے خود بہت معمولی مدرس ہیں شاید ڈیڑھ دو سو روپے تنخواہ ملتی ہوگی بیچارے بہت ہی برے حالوں میں تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمارے پاس ایک خاندانی کتب خانہ ہے اس کو آپ لے جایئے اس پر میں نے پوچھا کہ آپ کا اندازہ کیا ہے اس میں کتنی کتابں ہوں گی تو ان کا اندازہ تھا کہ سولہ سو کے قریب کتابیں ہیں جن میں تین چار سو کے درمیان ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں انہوں نے کہاکہ کوئی بھی مخطوطہ چار سو برس سے کم کا نہیں ہے اور اسی طرح چھپی ہوئی کتابں ی بھی بہت اہم ہیں میں نے ان سے قیمت پوچھی تو انہوں نے کہاکہ یہ میں آپ کو تحفتاً دینا چاہتا ہوں کیونکہ میں ان کو سنبھال نہیں سکتا۔ ایک اور مقام پر گوجرانوالہ کے میر عطا محمد صاحب  سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ گوجرانوالہ کے قدیم باشندے ہیں وہ خود انکے والد اور انکے دادا گوجر انوالہ کے میونسپل کونسلر تھے میر عطا محمد اسی برس کے ہورہے ہیں کوتوالی بازار میں اپنے قدیم لیکن عمدہ مکان میں بیٹھے وہ باتیں کررہے تھے کبھی آج کے دور کی اور کبھی اس زمانے کی جسے وہ ہمارا زمانہ کہتے تھے‘میں نے پوچھا کہ آپکے زمانے میں شہر گوجرانوالہ کیسا تھا؟ کہنے لگے‘یہ شہر جوتھا‘ یہ ایک قصبے جیسا شہر تھا اب تو یہ شہر بن گیا ہے‘دروازوں کے باہر کوئی شاذونادر مکان نظر آتا تھا اب تو یہ باہر میلوں تک پھیل گیا ہے پتہ نہیں لگتا یہ کتنا بڑا شہر ہے میں تو اب کسی جگہ چلا جاؤں تو مجھے پتہ نہیں لگتا کہاں آگیا ہوں‘میں نے کہا کہ آپکے زمانے میں چوری ڈکیتی رہزنی ہوتی تھی؟فوراً بولے‘ہاں ہوا کرتی تھی مگر بہت کم۔انہوں نے یہی جملہ دہرایا میں نے پوچھا یہ جو جی ٹی روڈ تھی اس پر اس قسم کی وارداتیں ہوتی تھیں؟ کہنے لگے کبھی نہیں‘ چوریاں وغیرہ گھروں میں ہوتی تھیں مگر بہت کم ایسی ڈکیتیاں وغیرہ سڑکوں پر تو کبھی نہیں ہوتی تھیں اور نہ کبھی سنی تھیں جہاں تک لاری اور ٹرک وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ سمجھئے کہ یہاں ایک سیشن جج تھا اسکے پاس ایک کار تھی اور ایک صلاح الدین کے پاس کار تھی میں نے سوال کیا کہ عام لوگ کیسے سفر کرتے تھے؟ انہوں نے بتایا بیل گاڑی میں‘ یہ جو بیل گاڑی ہوتی ہے نا؟ اس پر مال جاتا تھا دو دو تین تین دن کے بعد مثلاً لوہالاہور سے آرہا ہے کوئی فروٹ آرہا ہے کوئی یہاں سے جارہا ہے کوئی آرہا ہے یہ سب بیل گاڑی پر‘ میں نے پوچھا کہ اس وقت جی ٹی روڈ کتنی چوڑی تھی؟ انہوں نے بتایا دس فٹ مگر وہ چھوٹے روڑوں کی بنی ہوئی تھی یہاں تو اس کو دھرمٹ کہتے ہیں اس سے کٹائی ہوتی تھی ہاتھوں سے یہ انجن وغیرہ نہیں ہوتے تھے وہ بھی نے دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا کہ سڑک کی مرمت وغیرہ ہوتی رہتی تھی؟ ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہوگی؟جواب ملا بہت اچھی مرمت ہوتی تھی اور ٹوٹ سکتی نہ تھی نالکڑ کے پہئے ہوتے تھے بیل گاڑی کے‘ تو اس سے سڑک کہاں ٹوٹتی ہے گھوڑیوں پر لوگ سواری عام کرتے تھے اس سے کیا سڑک نے ٹوٹنا ہے اب میں نے میر عطا محمد صاحب سے پوچھا کہ سنا ہے کہ لوگ پیدل بھی سفر کرتے تھے؟وہ تصدیق کرتے ہوئے بولے انتہائی بہت زیادہ پیدل سفر کرتے تھے دس دس پندرہ پندرہ میل تو پیدل سفر کرتے تھے سائیکل پر میرے بھائی کئی دفعہ لاہور سے گوجرانوالہ آئے ہیں ایک دو دفعہ لاہور گیا خود بھی سائیکل پر۔