اونٹ کی پیٹھ پر سفر

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کتابوں کی تلاش  میں اپنے سفر کے دوران  ایک صاحب  سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا میں آپ کو ساڑھے تین ہزار روپے نذرانہ پیش کرنا چاہوں گا بہت خوش ہوئے کیونکہ ساڑھے تین ہزار ان کیلئے بہت بڑی رقم تھی مگر معلوم یہ ہوا کہ مجھے اورنگ آباد سے ایک بس کے ذریعہ تقریباً ڈیڑھ سو میل جانا ہے وہاں سے کشتی میں گوواوری پار کرنا ہے پھر بس پکڑ کر ساٹھ میل جانا ہے پھر تقریباً تیس پینتیس میل پیدل  چلنا ہے تو اب اندازہ لگایئے کہ اس کتب خانے کو وہاں سے منتقل کرنا کتنا مشکل تھا لہٰذا میں نے اسے چھوڑ دیا‘ پاکستان کے ممتاز دانشور اور افسانہ نگار جناب قدرت اللہ شہاب کو ایک مرتبہ خلیج بنگال کے ساحل پر اڑیسہ کے ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں وہ قدیم کتابیں دیکھ کر حیران رہ گئے شہاب صاحب نے بتایا‘ میں  ایک بہت ہی دور دراز علاقے میں گیا جہاں ایک گاؤں تھا اور اس گاؤں میں قدیم کتابیں تھیں میں سن چوالیس میں گیا تھا اور مجھ سے پہلے علاقے کا سرکاری افسر1901ء میں وہاں گیا تھا وہاں پر عجیب و غریب پرانی کتابیں اور مخطوطات نظر آئے کچھ ہندی میں تھے چونکہ مجھے ہندی بھی آتی تھی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ بہت نایاب کتابیں ہیں‘ کچھ اردو کی اور کچھ عربی کی کتابیں بھی تھیں وہ گاؤں سمندر کے کنارے تھا اور پرانے زمانے میں عرب ملاح اور تاجر وہاں آتے جاتے رہتے تھے عین ممکن ہے کہ یہ کتابیں وہی چھوڑ گئے ہوں حیدر آباد دکن کے کتابوں کے ایک تاجرعلیم الدین صاحب اب ضعیف ہوگئے ہیں اور بہت زمانے دیکھ چکے ہیں جان جوکھوں  میں ڈال کر کتابوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں مجھے بتا رہے تھے کہ شہنشاہ اکبر کے فرامین کی خبرپاکر وہ راجستھان کے ریگستانوں میں جا پہنچے کہنے لگے‘ میں جے پور گیا ہوا تھا جب کبھی جے پور جاتا ہوں عموماً یادگار سرائے میں ٹھہرتا ہوں ایک روز میں قلعہ دیکھنے کیلئے نکلا جو شہر سے دور ہے قلعے کی سیر کے بعد میں پہاڑی سے نیچے اترا وہیں قریب ہی ایک مسجد ہے اس مسجد میں اکبر کے زمانے کا ایک کتبہ لگا ہوا ہے میں اس کی عبارت کی نقل کر رہا تھا کہ مسجد کے سامنے سے گزرتا ہوا ایک شخص مجھے دیکھ کر رکا اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ آ پ کیا لکھ رہے ہیں تو میں نے کہاکہ بھائی میں یہ پرانی عبارت نقل کر رہا ہوں اس نے کہا کہ کیوں نقل کر رہے ہیں تو میں بولا کہ میں ایسی ہی چیزوں کا بیوپاری ہوں شہر شہر گھوم کر پرانی چیزیں خریدتا ہوں کتابیں خریدتا ہوں فرامین خریدتا ہوں یہ سب اسے بتایا تو اس نے کہا کہ یہاں سے پچیس تیس میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے وہاں شہنشاہ اکبر کے زمانے کے کاغذات ہیں اکبر نے مان سنگھ کو جو اسناد دیئے تھے وہ بھی ہیں اگر آپ چلیں تو مل سکتے ہیں میں تیار ہوگیا اور پوچھا کہ کس طرح چلیں گے وہ بولا کہ اگر اونٹ پر چلیں تو آسانی سے اور جلد پہنچ جائیں گے ویسے بھی اس علاقے میں کوئی گاڑی نہیں جا سکتی میں نے وہ بھی منظور کرلیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک اونٹ کرائے پر لے آیا جس پر کجاوہ غیرہ کچھ نہیں تھا مجھے اونٹ کی خالی پیٹھ پر بٹھا دیا اب وہ اونٹ ریت میں چلا تو آپ جانتے ہیں کہ اونٹ کا کوہان اونچا ہوتا ہے میں جونہی سنبھل کر بیٹھا نیچے سرک جاتا جونہی بیٹھتا سرک جاتا اوپر سے غضب یہ کہ اونٹ کے بال بڑے سخت ہوتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ میری رانوں کی کھال اڑ گئی اور بری حالت ہوگئی۔ خیر جوں توں کرکے گاؤں میں پہنچے‘ پہنچنے کے بعد بعد پتہ چلا کہ اس شخص نے صحیح نشاندہی کی تھی وہاں اکبر کے فرامین ملے وہ تو خیر ملے لیکن اب اسی اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر واپس جے پور آیا حالت بہت خراب ہوگئی دور روز تک تو بیمار رہا خیر وہ اسناد لاکر حیدرآباد کے باغ عام کے میوزیم میں محفوظ کرادی ہیں وہ یہاں موجود ہیں۔