ایک مقام پر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ قدرت اللہ شہاب صاحب نے ایک اور واقعہ سنایا اوریہ واقعہ نہیں بلکہ نشاندہی ہے تاریخ کے ایسے ریکارڈ کی جو برصغیر کے ہر ضلع میں آج بھی موجود ہوگا اور جسے اگر محفوظ نہ کیا گیا تو ہمارے تاریخ کی کتنی ہی گواہیاں مٹ جائیں گی شہاب صاحب نے کہا”جو ریکارڈ ڈپٹی کمشنروں کے دفتروں میں ریکارڈ آفس میں محفوظ ہے وہ بڑا بیش قیمت ہے اور تاریخ کا بہت ہی بڑا خزانہ ہے ایک زمانے میں جب میں ضلع جھنگ کا ڈپٹی کمشنر تھا تو مجھے شوق ہوا کہ ہیررانجھا کی تحقیق کروں تو میں نے ریکارڈ آفس کھلوایا جو سالہا سال سے بند پڑا تھا اس میں رجسٹروں کے علاوہ سانپ ہی سانپ تھے کسی طرح سے میں نے رجسٹر نکلوائے تو35 سال کے رجسٹر ایک ہی شخص کے خوشخط ہاتھ کے لکھے ہوئے تھے اس سے پہلے کے ساٹھ سال کے رجسٹر بھی ایک ہی ہاتھ کے لکھے ہوئے تھے اتنے خوش خط کہ دیکھ کر انسان پرنٹنگ پریس کو بھول جاتا تھا لیکن ہیررانجھا کی تحقیق مجھ سے نہ ہو سکی البتہ مرزا صاحباں کا نشان ملا وہ قصہ جھنگ کے علاقے کا تھا وہاں پر مرزا صاحباں کی قبر بھی تھی تو میں نے اس کی تحقیق کی ان تک تو نہیں پہنچ سکا لیکن ان کے خاندان کی تین سیڑھیوں تک اس ریکارڈ سے میں نے پوری تحقیق کرلی تو اسی طرح ہر دفتر میں‘ ہر ڈپٹی کمشنر کے ہر ضلع میں جو ریکارڈ خانہ ہے اس کو بھی اسی طرح محفوظ کیا جانا چاہئے جیسے بہت ہی بڑے بیش بہا خزانوں کو محفوظ کیا جاتا ہے‘ اور اب آخر میں کچھ ایسی پرانی عربی کتابوں کا ذکر جوکیرالہ کے ساحل پر مچھیروں کی ایک بستی میں چھینکے میں رکھی ہوئی پائی گئیں ان کا واقعہ عبدالصمد خاں صاحب کو انکے ایک دوست اے جی فاروقی صاحب نے سنایا جو اپنے سرکاری فرائض کے سلسلے میں کیرالہ گئے تھے صمد صاحب نے بتایا‘ فاروقی صاحب کا بیان ہے کہ وہ دیہاتی علاقے سے گزر رہے تھے تو راستے میں ایک پرانا قبرستان ملا جو بہت ہی خوبصورت تھا قبریں اور انکے کتبے اتنے عمدہ تھے کہ ان سے رہا نہیں گیا اور اتر کر انہوں نے دیکھنا شروع کیا تو دس بجے صبح سے شام پانچ بجے تک اسکے مختلف کتبوں کو نقل کرتے رہے پانچ بجے کے قریب کچھ گاؤں والے وہاں سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ یہ قبرستان کس کا ہے؟ کوئی اسکے وارث ہیں یا نہیں؟ تو گاؤں والوں نے کہا کہ وہ جو جھونپڑیاں نظرآرہی ہیں وہ لوگ آکر کبھی چراغ جلا دیتے ہیں وہ مچھیروں کی بستی تھی تو جب فاروقی صاحب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں تقریباً سبھی مسلمان تھے تو بیٹھے باتیں کر رہے تھے ان لوگوں نے بتایا کہ ہاں صاحب ہمارے باپ دادا کی قبریں ہیں اچانک ان کو چھینکے پر کچھ کتابیں لٹکی ہوئی نظر آئیں فاروقی صاحب نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو گاؤں والوں نے کہاکہ صاحب خدا کی کتابیں ہیں انہوں نے کہا کہ دیکھوں؟ تو ان کا بیان ہے کہ وہ فلسفہ‘ منطق‘ طب اور ریاضی پر عربی کی بہت قدیم کتابیں تھیں تو انہوں نے کہاکہ تم ان کو قرآن سمجھ رہے ہو یہ قرآن شریف نہیں ہے بلکہ حکمت کی اور حساب وغیرہ کی کتابیں ہیں ان کو بیچ دو تم کیوں رکھے ہوئے ہو؟ اس پر گاؤں والوں نے کہاکہ واہ صاحب واہ ہم باپ دادا کی ہڈیاں بیچ دیں‘ تو آپ اندازہ لگا لیجئے کہ ہمارے ہاں کتابوں کا ذخیرہ کس طرح منتشر ہے اور کیا کیا نایاب چیزیں دفن ہیں۔