مشہور برا ڈ کاسٹر اور لکھاری رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ملا خواصی دکن کے بڑے نامور شاعر گزرے ہیں وہ تقریباً ساڑھے تین سو سال پہلے گولکنڈہ میں قطب شاہی دور میں موجود تھے اور ساتویں بادشاہ سلطان عبداللہ قطب شاہ کے زمانے میں گولکنڈہ سے بیجاپور تک دکنی شاعری کے میدان میں غواصی کا ڈنکا بج رہا تھا مگر تین صدیوں کا سفر طے کرکے انکی صرف تین مثنویاں ہم تک صحیح سلامت پہنچیں اور خواصی کے کلیات کا نسخہ کہیں راہ میں مارا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ دکنی اُردو کی تاریخ کا ایک پورا باب زمانے کی نگاہوں سے چھپ گیا اور محقق کہنے لگے کہ ان کی تحقیق اب کبھی مکمل نہ ہو سکے گی کہ اچانک ایک روز حیدرآباد ریڈیو سے اعلان ہوا اور دنیائے علم و ادب میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ بقول شخصے ”خواصی کی کلیات علیم الدین لایا ہے“ میں دکن گیا تو علیم الدین صاحب کو ڈھونڈ نکالا اب ضعیف ہوگئے ہیں پرانی اور قیمتی کتابوں کے کاروبار میں عمر گزاری ہے اور کتنی ہی تاریخی دستاویزیں ہندوستان کے گوشے گوشے سے لاکر اہل علم افراد اور اداروں کو فراہم کی ہیں میں نے علیم الدین صاحب سے فرمائش کی کہ خواصی کا دیوان کیونکر آپ کے ہاتھ لگا اس کی داستان ہمیں بھی سنایئے یہ سال سن کر بہت مسرورہوئے اور اس واقعے کی ذرا ذرا سی تفصیل سناڈالی جس واقعے کی بدولت خواصی کا دیوان بیجاپور کے نالے میں بہنے سے بچ گیا اور دنیا میں اس کا جوواحد نسخہ ہے وہ کتب خانہ آصفیہ میں محفوظ ہوگیا تو علیم الدین صاحب کا وہ دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے کچھ میری کتابی زبان میں اور کچھ ان کی دکنی لہجے میں۔ شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملا غواصی کا دیوان کہیں موجود ضرور ہے علیم الدین صاحب کہتے ہیں کہ وہ بیس سال سے اس کی تلاش میں تھے ایک مرتبہ وہ حیدر آباد سے بیجاپور گئے اور وہاں اپنے ایجنٹ بانگی صاحب سے ملے بانگی صاحب بیچارے علاقے بھر کی خاک چھاننے کے بعد جو پرانی کتابیں جمع کرکے لائے تھے وہ علیم الدین صاحب کے سامنے رکھیں تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان میں کلیات خواصی کے دوچار ورق موجود ہیں علیم الدین صاحب حیرت اور خوشی سے اچھل پڑے اور بانگی صاحب سے پوچھا کہ یہ ورق تم کہاں سے لائے؟ بانگی صاحب نے نہایت سادگی سے جواب دیا کہ یہ پورابستہ وہ صدرالصدور کی جاگیر سے لائے ہیں علیم الدین صاحب فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ابھی اسی وقت صدر الصدور کی جاگیر پر چلو بانگی صاحب نے بتایا کہ ان کی جاگیر بہت دور گاؤں دیہات کے علاقے میں ہے وہاں پہنچنے کیلئے پہلے ٹرین سے پندرہ میل دور جانا ہوگا اور وہاں سے سات میل پیدل چلنا ہوگا اور وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے مگر علیم الدین صاحب اڑ گئے جس وقت وہ ٹرین میں بیٹھے سورج غروب ہونے والا تھا اور جب گاڑی تلگی کے سٹیشن پر پہنچی اندھیرا ہو چکا تھا اور سٹیشن بالکل ویران پڑا تھا چاروں طرف کھیت اور جنگل تھے اور دور دور تک انسان کا نام و نشان بھی نہ تھا کیڑے اور جنگلی جانور شور مچارہے تھے بانکی صاحب نے مشورہ دیا کہ صبح کو بستی میں چلیں گے رات بھر یہیں سٹیشن پر سورہیں مگر علیم الدین صاحب نے کہا میں ان کیڑوں کی آواز سے سونہیں سکتا معلوم نہیں یہاں کیا کیا ہے سانپ ہے بچھو ہے کیا ہے کدھر ہے میں تو نہیں سو سکتا جہاں تک ہو سکے پیدل ہی چلیں گے‘ آخر بانگی صاحب کو ہار ماننی پڑی انہوں نے کہاکہ سڑک کے راستے گاؤں کا فاصلہ سات میل ہے اگر کھیتوں کے اندر سے چلیں تو گاؤں قریب پڑے گا کلیات خواصی کے اشتیاق میں علیم الدین صاحب کھیتوں میں اترگئے‘ جوار کی اونچی فصل تھی اور اس کے پتے چاقو چھری کی طرح تیز تھے علیم الدین صاحب نے اپنے ہاتھ بہتیرے شیروانی کی آستینوں میں چھپائے مگر وہ بری طرح زخمی ہوگئے رات دو بجے یہ دونوں حضرات کڑگی نامی گاؤں میں پہنچے جو صدر الصدور کی جاگیر ہے گاؤں کے کتے بری طرح بھونکنے لگے اور علیم الدین صاحب ڈرے کہ بستی والے اپنے گھروں سے نکل کر ان کی خبرلیں گے مگر بانگی صاحب انہیں پولیس چوکی کی عمارت میں لے گئے جو اس وقت خالی پڑی تھی البتہ آتش دان میں ایک بڑی سی لکڑی جل رہی تھی دونوں نے باقی رات آتش دان کے سامنے گزاردی نیند علیم الدین صاحب کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور انہیں تو بس صبح کا انتظار تھا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات