نایاب کلیات کی برآمدگی

کتابوں اور قدیم لائبریوں کی تلاش میں اپنے سفر کے حوالے سے رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں ایک صاحب کا ذکر کرتے ہیں کہ  بہرحال وہ گاؤں سے بیجاپور اور بیجاپور سے حیدرآباد پہنچے غواصی کا دیوان ابھی ان کے بغل ہی میں تھے کہ شہر میں ڈھنڈورا ہوگیا کہ خود علیم الدین صاحب کے بقول غواصی کا کلیات علیم الدین لالیا ہے‘یہ خبر سنتے ہی سالار جنگ نے نواب سعادت علی خاں کو بھیجا کہ وہ علیم الدین صاحب سے کلیات لے آئیں اور منہ مانگی قیمت دے دیں بابائے اردو مولوی عبدالحق ان دنوں دلی میں تھے انہوں نے فوراً علیم الدین صاحب کو لکھا کہ کلیات کسی اور کو نہ دنیا میں پانچ ہزار روپے بھیج رہا ہوں‘ مگر علیم الدین صاحب ٹال مٹول کرتے رہے اور کلیات کا نسخہ لے کر علامہ عمادی کے پاس پہنچے جو عربی کے بڑے عالم تھے اور دارالترجمہ کا ایک اہم ستون تھے انہوں نے کہا کہ میں کلیات غواصی کو کتب خانہ آصفیہ میں رکھنا چاہتا ہوں میں وزیراعظم نواب مہدی یارجنگ سے اجازت لے کر کتب خانے کی  کمیٹی کا اجلاس کر رہا ہوں اور کمیٹی کے اختیارات میں جتنی بھی رقم ہوگی تمہیں دلاؤنگا‘ دوسرے روز کمیٹی بیٹھی ظاہر ہے کہ وہ  کتاب کو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتی تھی مگر کمیٹی کے اختیارات محدود تھے وہ تین ہزار روپے سے زیادہ نہیں دے سکتی تھی عمادی صاحب نے علیم الدین صاحب کو بلایا اور انہیں سمجھایا کہ کمیٹی بے بس ہے  ورنہ تمہیں بہت زیادہ رقم دی جاتی اس وقت یہی تین ہزار روپے قبول کرلو البتہ آئندہ کمیٹی تمہارا خاص خیال رکھے گی علیم الدین صاحب نے یہ پیشکش قبول کرلی کلیات غواصی اب آندھراپردیش آرکائیوز میں محفوظ ہے دنیا میں اس کا بس یہی ایک نسخہ ہے اور آخر میں دیوان غالب کے اس تاریخی نسخے کا احوال جو نسخہ بھوپال اور نسخہ حمیدیہ کے ناموں سے مشہور ہے دیوان غالب کا یہ نسخہ1821ء کے لگ بھگ لکھاگیا تھا جب غالب صرف پچیس برس کے تھے پھر یہ نسخہ1915ء کے قریب بھوپال میں کتب خانہ حمدیہ یعنی نواب صاحب کی لائبریری سے نکل آیا اس کی اشاعت ہوئی اور تقریباً تیس سال تک محفوظ رہ کر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا دیوان غالب کے اس نسخہ بھوپال کے متعلق وہاں اردو کے استاد اور محقق جناب عبدالقوی دسنوی بتا رہے تھے۔ یہاں جو نواب صاحب کی لائبریری تھی جہاں نسخہ بھوپال تھا اور وہ وہاں سے لاپتہ ہوگیا پتہ نہیں کہاں ہے وہیں جیسا کہ مجھے اطلاع ملی ہے عربی فارسی کے بھی کافی نسخے تھے لیکن اب تک ان کا علم نہیں ہے میں خود تلاش میں ہوں کہ کچھ چیزیں وہاں سے دستیاب ہو جائیں وہ یا تو کسی صندوق میں بند ہیں یا کسی ایسے کمرے میں بند ہیں جہاں لوگ جا نہیں رہے ہیں میرا خیال ہے کہ نسخہ بھوپال بھی وہیں کہیں چھپا ہوا ہے‘ ایسی باتیں سن کر ہم جی ہی جی میں پوچھتے ہیں کہ محل میں کتابیں موجود ہوں اور خود محل والوں کو ان کا علم نہ ہو یا ان کا خیال نہ ہو کیا یہ ممکن ہے؟ اندر کہیں سے ایک سہما سہما سا جواب آتا ہے ہاں یہ ممکن ہے‘کتب خانہ آصفیہ کا ذکر کرتے ہوئے رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ میں کتب خانے کے عملے سے کہا کہ کچھ کتابیں لاکر دکھا دیجئے، انہوں نے کہا کہ کتابیں باہر لانے کی ضرورت نہیں، نئے رواجوں کے مطابق آپ خود کتابوں کی الماری کے پاس جا سکتے ہیں  اور جو کتاب چاہیں نکال کر دیکھ سکتے ہیں۔ اور پھر میری درخواست پر انہوں نے مجھے اس بڑے کمرے میں پہنچادیا جہاں لوہے کی قدیم الماریوں میں اردو، فارسی اور عربی کی کتابیں چنی ہوئی تھیں، کہیں دور ریلوے سٹیشنوں کے غسلخانے جیسا مدھم سا بلب ٹمٹما رہا تھا اور کتابیں کچھ اس طرح سو رہی تھیں کہ میں ان کے سرہانے بولا تو اس بات کا بہت خیال رکھا کہ آہستہ بولوں،میں نے کتب خانے کے  ایک نگران جناب عبدالقادر صاحب سے پوچھا کہ یہ کسمپرسی کا عالم کیوں ہے،ایک یتیمی سی کیوں نظر آتی ہے تو کہنے لگے۔ یہاں فارسی، عربی اور اردو کی بہت پرانی اور نایاب کتابیں موجود ہیں، بعض تو دو سو سال پرانی ہیں، لیکن عربی فارسی کا کوئی قابل آدمی نہیں ہے کہ اس شعبے کی نگہداشت کرے، حکومت چاہتی ہے کہ کوئی تقرر ہو لیکن عربی جاننے والے لوگ آج کل عرب ملکوں کو آسانی سے چلے جارہے ہیں، جہاں زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں، یہاں سرکاری تنخواہیں کم ہیں،اس واسطے اس کا صحیح انتظام نہیں ہوسکا۔ یہ تو ہوا چھپی ہوئی کتابوں کا احوال،وہ جو ہاتھ سے لکھی ہوئی ہزاروں کتابیں تھیں جن کی وجہ سے کتب خانہ آصفیہ مشہور تھا وہ کیا ہوئیں، پتہ چلا کہ وہ سٹیٹ آرکائیوز میں منتقل کردی گئی ہیں۔ مگر کیوں؟کسی نے کہا اچھا ہی ہوا، وہ بہت ہی نادر اور بیش قیمت مخطوطے تھے یہاں ان کی حفاظت اور دیکھ بھال ممکن نہ تھی۔ تب پتہ چلا کہ کتب خانہ آصفیہ  عرف سٹیٹ سنٹرل لائبریری کی کتابوں پر سب سے بڑا ظلم دیمک، کیڑوں، خاک دھول، اندھیرے اور سلین نے نہیں بلکہ ہم نے آپ نے اور پڑھنے والوں نے، محققوں نے اور طالب علموں نے کیا۔