ماضی کی یادیں 

مشہور مصنف  اوربراڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک میوزیم کا تعلق ہے کراچی اور دہلی کے قومی عجائب گھروں میں قلمی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے اور برصغیر کے کتنے ہی عجا ئب گھروں میں تاریخ کی ایسی ایسی دستایزویں محفوظ ہیں جن کی قیمت لگانا مشکل ہے لیکن چھپی ہوئی اور قلمی کتابوں کا ایک عظیم الشان خزینہ حیدرآباد دکن کے سالار جنگ میوزیم میں ہے جسے وہ اتنے اہتمام سے رکھتے ہیں کہ دوسرے عجائب گھروں کو ان کی تقلید کرنی چاہئے اسکے بعد ہم آتے ہیں ذاتی یا نجی کتب خانوں کی طرف انکے مالک تین قسم کے ہیں ایک تو وہ جو خاندانی ذخیروں کو لئے بیٹھے ہیں ایک وہ جنہیں علم اور کتابوں سے لگاؤ ہے اور ساتھ ہی صاحب حیثیت بھی ہیں اس لئے ان کے گھر کتابوں سے بھرگئے اور تیسرے وہ لوگ ہیں جو صاحب حیثیت نہیں مگر کتابوں کے پیچھے دیوانے ہیں اور  نہ معلوم کیسے کیسے جتن کرکے اپنے کتب خانوں کی تعمیر کر رہے ہیں یہ ذاتی یا نجی کتب خانے دو قسم کے ہیں ایک تو وہ جن کے دروازے بند ہیں اور دوسرے وہ جو ہر ایک کیلئے کھلے ہیں‘  ذاتی کتب خانوں کے بعد وہ ادارہ آتا ہے جسکا تذکرہ اگرچہ آخر میں مگر جو اولیت کے معاملے میں بہت اوپر ہے اور وہ ہیں ہماری مسجدیں‘ مدرسے اور خانقاہیں‘ دینی مدرسے تو پورے برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں نامور مدرسے رہے ایک طرف‘ بعض چھوٹے مدرسوں میں بھی علم و حکمت کے ایسے ذخیرے موجود ہیں کہ باہر کی دنیا کو ابھی ان کا علم ہی نہیں مسجدوں کا عالم یہ ہے کہ چونکہ ان میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی تھا اسلئے ان کے اپنے کتب خانے بھی تھے ان کی فہرست طویل ہے لیکن بھوپال کی تاج المساجد اور بمبئی کی جامع مسجد میں کتابوں کا بے مثال ذخیرہ موجود ہے مگر یہ کتابیں برسوں استفادہ کرنے والوں کی راہ تکا کرتی ہیں اور کوئی نہیں آتا ان کی قدر نہ کی گئی تو ان کتابوں کی باتیں محض خوابوں کی باتیں رہ جائیں گی‘ اولیاء اور صوفیاء نے مشائخ اور درویشوں نے بھی جہاں علم کے موتی لٹائے وہیں خود بھی علم کے خزانے بٹورے اور کتابوں کے بڑے بڑے ذخیرے جمع کئے ایسے ہی ایک ناقابل یقین کتب خانے کے بارے میں اجمیر کے ڈاکٹر  ظہور الحسن شارب نے بتایا‘ گجرات کے اندر شاہ وجیہہ الدین صاحب ایک بہت ہی مشہور درویش ہوئے ہیں وہ درویش ہی نہیں تھے بلکہ بڑے عالم  بھی تھے اور خود ایک مدرسہ چلاتے تھے انکے پاس کتابوں کا ذخیرہ اٹھارہ ہزار بتایا جاتا ہے بعض لوگ ستائیں ہزار کہتے ہیں بہرحال یقینی بات ہے کہ ایک اچھا خزانہ تھا اور سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ یہ کتب خانہ صرف دو موضوعات پر مشتمل تھا یعنی تفسیر اور حدیث‘ اسکے معنی یہ ہوئے کہ کتابیں چاہے اٹھارہ ہزار ہوں یا اس سے بھی کم صرف دو موضوعات پر اتنا بڑا ذخیرہ ہونا بہت بڑی بات ہے‘ برصغیر کی درگاہوں میں تکیوں اور گدیوں میں ان گنت کتابیں موجود ہیں لیکن اب ان میں سے زیادہ تر کتب خانوں کی حالت اچھی۔