صدر پیوٹن اور عالمی امن

پیر کے دن سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ اور روس کے سفارتکاروں نے ایک دوسرے پرعالمی امن کو نقصان پہنچانے اور اور دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے الزامات لگائے دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تصادم مسلسل جاری رہاامریکہ اور نیٹو ممالک اس خدشے کا اظہار کرتے رہے کہ روس‘  یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ فوج جمع کرنے کے بعد کسی بھی وقت اس پر حملہ کر سکتا ہے اس الزام کو روس کے مندوبین نے بے بنیاد اور ہیجان خیز قرار دیا اقوام متحدہ میں امریکی سفیر Linda Thomas Greenfield نے کہا کہ یورپ کو اسوقت ایک ایسی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے جسکا تدارک نہایت ضروری ہے انکے روسی ہم منصب Vassily Nebenzia نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ میں جنگ ہو امریکہ انتظار کر رہا ہے کہ جنگ کب شروع ہو گی اور جنگ اگر شروع ہوتی ہے تو امریکہ کہے گا کہ اسکی پیشگوئی سچ ثابت ہو گئی ہے اس سفارتی تصادم کے بارے میں مبصرین نے کہا ہے کہ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان اس قسم کی محاذآرائی سرد جنگ کے دنوں میں اکثر ہوا کرتی تھی سکیورٹی کونسل کے اس اجلاس کے نتیجہ خیز ہونیکی توقع کسی کو بھی نہ تھی ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اسنے فریقین کو اپنا مؤقف عالمی رائے عامہ کے سامنے رکھنے کا موقع دیا امریکہ نے یہ اجلاس طلب کیا تھا روس اور چین نے اسکی مخالفت کی تھی اسکے اختتام پر دونوں نیوکلیئر ممالک میں کشیدگی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔یورپی ممالک ایک نئی جنگ کے خطرے کو ٹالنے کیلئے بھرپور سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں پیر کے دن فرانس کے صدر ایمینول میکرون نے فون پر صدر پیوٹن سے بات چیت کی روس کی وزارت خارجہ کے مطابق اس گفتگو میں صدر پیوٹن نے اپنے اس مطالبے کو دہرایا کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنے توسیعی عزائم سے باز آئے اور یوکرین کو اپنا ممبر نہ بنانے کی تحریری طور پر یقین دہانی کرائے دونوں رہنماؤں نے بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔منگل کے روز صدر پیوٹن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ یوکرین کے مسئلے پر روس کو ایک جنگ میں رگیدنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنے اتحادیوں کو روس پر سخت اقتصادی پابندیاں نافذ کرنے پر قائل کر سکے  صدر پیوٹن نے کہا کہ انکی حکومت اس اشتعال انگیزی کے باوجود سفارتکاری کے ذریعے اس تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس پریس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اسمیں صدر پیوٹن نے یوکرین کے خلاف فوجی اور ٹیکنیکل اقدامات اٹھانے کی بجائے تناؤ اور کشیدگی میں کمی کرنے کی کوشش کی انکے لہجے کی اس تبدیلی کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ یوکرین پر حملہ نہیں کریں گے انہوں نے ایک منجھے ہوئے سفارتکار کی طرح ہر سوال کا جواب دیااپنی حکمت عملی کے مطابق وہ یورپ کی فضاؤں میں ایک جنگ کے خطرے کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے عسکری تجزیہ کاروں نے صدر پیوٹن کی منصوبہ بندی کے بارے میں کہا ہے کہ انکے لئے ایک لمبے عرصے تک ایک لاکھ سے زیادہ فوج کو سرحدوں پر رکھنا نہایت مشکل ہو گااس موقع پر وہ اگر نیٹو کیساتھ کسی معاہدے کے بغیر فوج کی تعداد میں کمی کرتے ہیں تو اسے انکی کمزوری سمجھا جائے گا اسکے برعکس وہ اگر یوکرین پر حملہ کرتے ہیں تو اس صورت میں ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانوں کا نقصان ہو گا صدر پیوٹن اگر یوکرین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تاریخ انہیں ایک جارح حملہ آور کے طور پر یاد رکھے گی اس اعتبار سے یوکرین پر حملہ صدر پیوٹن کی زندگی کا اہم ترین سیاسی فیصلہ ہے۔وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری Jen Psaki نے صدر پیوٹن کی پریس کانفرنس کے بارے میں کہا ہے کہ ایک بھیڑیا مرغیوں کے ڈربے کے سامنے کھڑا ہو کر شور مچا رہا ہے کہ اسے مرغیوں سے خطرہ ہے۔ صدر پیوٹن نے منگل کے دن یہ پریس کانفرنس ہنگری کے صدر Victor Orban کیساتھ پانچ گھنٹے کی طویل ملاقات کے بعد کی تھی اسی روز سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کیساتھ فون پر گفتگو کی اسکے بارے میں یہ بتایا گیاہے کہ دونوں ممالک بات چیت جاری رکھیں گے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی اسی روز یوکرین کے دارلخلافے Kyiv گئے وہاں انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں صدر ولادیمیر زیلنسکی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا بورس جانسن نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ کو اسوقت ایک خطرناک جنگ کا سامنا ہے اس موقع پر صدر زیلنسکی نے کہا کہ یہ جنگ صرف روس اور یوکرین کی جنگ نہ ہوگی بلکہ یہ یورپ کے تمام ممالک کی جنگ ہو گی تصادم اور کشیدگی کے اس ماحول میں تمام فریقین سفارتکاری کے ذریعے ایک تباہ کن جنگ کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں نظر یہ آ رہا ہے کہ اسوقت عالمی امن کو برقرار رکھنے کا آخری فیصلہ صدر پیوٹن ہی کریں گے فی الحال مبصرین کے مطابق He is keeping Europe on edge یعنی پیوٹن نے یورپ کو ایک مخمصے میں ڈالا ہوا ہے۔