امریکہ کی ٹو فرنٹ وار

پیر کے دن ماسکو میں فرانس کے صدر ایمینؤل میکرون نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے بعد رات گئے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے صدر پیوٹن نے کہا کہ وہ مزید مذاکرات کیلئے تیار ہیں مگر اسکے ساتھ ہی انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر یوکرین کے حوالے سے انکے سکیورٹی تحفظات دور نہ کئے گئے تو روس اور مغرب کے درمیان ایک ایسی جنگ شروع ہو سکتی ہے جو پورے یورپ کیلئے تباہی کا باعث بن سکتی ہے صدر میکرون نے کہا کہ یورپ اسوقت ایک ایسے تناؤ کی کیفیت سے گذر رہا ہے جو اسنے کئی عشروں سے محسوس نہیں کیا پیر ہی کے دن  جرمنی کے چانسلر Olaf Scholzنے وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن سے ملاقات کی اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوے صدر بائیڈن نے کہا کہ روس نے اگر یوکرین پر حملہ کیا تو نیٹو ممالک اسے متحد ہو کر جواب دیں گے ان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر پیوٹن یوکرین پر حملہ کریں گے یا نہیں صدر بائیڈن نے جواب دیا کہ I dont know that he knows what he is going to do یعنی مجھے نہیں معلوم کہ اسے پتہ ہے یا نہیں کہ وہ کیا کریگا صدر امریکہ نے کہا کہ انہوں نے واضح لفظوں میں صدر پیوٹن سے کہا ہے کہ وہ روس پر ایسی اقتصادی پابندیاں عائد کریں گے جو اس سے پہلے کسی ملک پر بھی عائد نہیں کی گئیں چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ وہ اپنے امریکی دوستوں سے یہ کہنے آئے ہیں کہ وہ  متحد ہو کر روس کو جواب دیں گے۔امریکی میڈیا نے اولاف شولز کی یقین دہانی کو مسترد کرتے ہوے کہا ہے کہ جرمن چانسلر نے دو ٹوک لفظوں میں اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ وہ یوکرین پر حملے کی صورت میں روس کے ساتھ Nord Stream 2 گیس پائپ لائن کے منصوبے کو ختم کریں گے یا نہیں اس زیر تکمیل پراجیکٹ پر گیارہ بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور اسپر چار سال سے کام ہو رہا ہے یہ پائپ لائن مغربی یورپ کو زیادہ مقدار اور کم قیمت پر گیس فراہم کریگی دوسری طرف ایمینؤل میکرون کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انکا جھکاؤ رو س کی طرف ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو ممالک انکی تقلید کریں صدر میکرون نے ماسکو میں کہا کہ There is no security for Europe if there is no security for Russia  یعنی روس اگر محفوظ نہیں ہے تو یورپ بھی محفوظ نہیں ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض نیٹو ممالک روس کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہیں مگر امریکہ روس کے مطالبات تسلیم نہ کرنیکا فیصلہ کر چکا ہے واشنگٹن اس بے لچک پالیسی سے اسلئے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا کہ افغانستان کی شکست کے بعد وہ ایک دوسری بڑی پسپائی کا متحمل نہیں ہو سکتا وہ فراخدلی کیساتھ یوکرین کو جدید اسلحہ مہیا کر رہا ہے اور اسنے تین ہزار فوجی بھی مشرقی یورپ کے ممالک میں بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے اسکے علاوہ آٹھ ہزار مزید فوجی بھی ہائی الرٹ پوزیشن میں یوکرین کے ہمسایہ ممالک جانے کیلئے تیار کھڑے ہیں صدر پیوٹن نے گزشتہ ہفتوں میں یوکرین کے مشرق‘  شمال اور جنوب میں اپنی افواج کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھا کر ایک لاکھ تیس ہزار کر دی ہے اسکے بعد مغربی میڈیا کہہ رہا ہے کہ پیوٹن سفارتی سرگرمیوں کی آڑ میں حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ صدر پیوٹن حملہ کریں گے یا نہیں اس سوال سے قطع نظر یہ طے ہے کہ انہوں نے نہ صرف اقوام عالم کی توجہ حاصل کر لی ہے بلکہ انہوں نے امریکہ کو کئی سفارتی محاذوں پرا لجھا بھی دیا ہے چار فروری کے دن ونٹر اولمپک گیمز کے موقع پر انہوں نے بیجنگ میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ چین کے صدر ان سرمائی کھیلوں کے ذریعے اپنے ملک کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے اور انکے ساتھ صدر پیوٹن کی موجودگی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ دونوں لیڈر مغرب کے خلاف اپنے اتحاد کی نمائش کرنا چاہ رہے تھے  نیو یارک ٹائمز نے پانچ جنوری کو پہلے صفحے کی خبر میں لکھا ہے It showed China and Russia's determination to present a united front against the United States اسکے بعد یہ کہا جا سکتا کہ امریکہ نے چین روس اتحاد کو دیکھتے ہوے اپنے خلاف ایک ٹو فرنٹ وار کی حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں امریکی میڈیا اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ پوچھ چکا ہے کہ کیا انکا ملک بہ یک وقت ان دو بڑی طاقتوں سے نبرد آزما ہو سکتا ہے یا نہیں بائیڈن انتظامیہ اس سوال کا جواب دینے سے گریز کر رہی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر تو امریکی پالیسی واضح ہے کہ وہاں امریکہ اپنی فوج نہیں بھیجے گا مگر تائیوان کے مسئلے پر آج تک کسی بھی امریکی صدر نے یہ نہیں کہا کہ وہاں چین کے حملے کی صورت میں فوج بھیجی جائیگی یا نہیں اس معاملے میں امریکہ نے گزشتہ کئی عشروں سے جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے اسے Strategic ambiguity یا تزویراتی ابہام کی پالیسی کہا گیا ہے اس ابہام کے کئی فائدے ہیں ایک تو چین کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں اور دوسرا امریکہ کیلئے بھی تائیوان میں فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کے دونوں آپشنز کھلے پڑے ہیں امریکہ چین تعلقات کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر صدر پیوٹن یوکرین پر چڑھائی کرتے ہیں تو اس صورت میں کیا صدر شی جن پنگ تائیوان پر حملہ کر کے امریکہ کو ٹو فرنٹ وار میں الجھانے کی کوشش کریں گے یا نہیں اسکا جواب اگلے کالم میں دیا جائیگا۔