یادگار لمحات کا تذکرہ

مشہور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی کتاب ”تیس سال قبل“ میں اپنے پاکستان کے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم نے سندھ کے عظیم الغوزہ نواز خمیسو خان کو مدعو کیا تھا، ہمیں کیا خبر تھی کہ اس اثنا میں وہ دل کے مریض ہو چکے تھے، ورنہ یہ زحمت نہ دیتے۔ مگر کوئی دوسرا ہی دل رہا ہوگا جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ بھی چلے آئے۔ بڑا اصرار کرکے انہیں واپس بھیجا تاکہ وہ معالج کی ہدایت کے مطابق اپنا آرام جاری رکھیں۔ مٹھا خان نواب شاہ میں رہتے ہیں ہم نے دعوت نامہ بھیج دیا تھا اور سوچا تھا کہ اتنا سفر طے کرکے وہ شاید ہی آئیں مگر تمام مہمانوں میں سب سے پہلے وہی آئے اور اس شان سے آئے کہ ایک ہاتھ میں سندھی چادر اور اسکے اندر مٹی کا مٹکا جسے طبلے کی طرح بجانے میں مٹھا خان کا جواب نہیں پارٹی میں رخسانہ بھی موجود تھیں جو کبھی رخسانہ امیر کے نام سے پاکستان ٹیلی وژن کی مقبول فنکارہ تھیں اور ان دنوں بی بی سی کے پروگرام شاہین کلب میں حصہ لیا کرتی تھیں انہیں ہماری پارٹی کے بعد کسی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے جانا تھا معلوم ہوتاتھا کہ شرکت نہیں ہوگی بلکہ دلہن سے مقابلہ ہوگا نتیجہ یہ ہوا کہ فوٹو گرافر نے میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو کوئی بادشاہ کسی دوسرے بادشاہ کے ساتھ نہیں کرتا تقریب میری تھی تصویریں رخسانہ کی اتر رہی تھیں چائے سے زیادہ ہم نے صبر کے گھونٹ پیئے‘ حیدرآباد میں ایک بڑا کام یہ ہوا کہ میرے نصیب جاگے اور کچھ اہل علم حضرات سے ملاقاتیں ہوئیں کیسے کیسے محترم نام ہیں ڈاکٹر غلام علی الانہ‘ جناب غلام ربانی‘ علامہ غلام مصطفی قاسمی ان تینوں حضرات کے نام میں لفظ غلام مشترک تھا اور کام میں علم کی لگن۔ الانہ صاحب اس وقت انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی کے سربراہ تھے ان سے ملاقات پہلے سے طے نہ تھی نہ ہی وہ جانتے تھے کہ میں ان سے ملنے کیوں آرہا ہوں ملاقات شروع ہوتے ہی میں نے اپنے مطلب کی بات چھیڑ دی بتایئے سندھ میں کتب خانے اور کتابوں کے ذخیرے کہاں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں پھر جو دروازہ علم کھلا تو اندر تک نور ہی نور بھرگیا الانہ صاحب نے اتنے بڑے قدیم اور تاریخی علاقے کے گوشے گوشے کا حال کہہ سنایا اور جب میں لوٹ کر لندن آگیا تو ان کا خط آیا کہ کچھ کتب خانوں کا ذکر تو رہ ہی گیا باکمال ہیں یہ لوگ۔علامہ غلام مصطفی قاسمی جید عالم ہیں ان کا علم نوربن کر ان کے چہرے سے کرنوں کی طرح پھوٹتا ہے میں علامہ کے گھر گیا اور کہاکہ آپ کا نیاز مند ہوں فرمانے لگے کہ کچھ یہی معاملہ میرا آپ کے ساتھ ہے آپ کا پروگرام شاہین کلب ضرور سنتا ہوں میں نے کہا علامہ وہ تو بچوں کا پروگرام ہے‘ کہنے لگے کہ میرے بچے سنتے ہیں ان ہی کے ساتھ بیٹھ کر میں بھی ان ہی کی طرح اشتیاق سے سنتا ہوں میں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو اپنے بچوں سے ملاقات کرادیجئے علامہ نے فوراً آواز دے کر انہیں بلا لیا ان میں غالباً دو ڈاکٹر اور ایک پروفیسر تھے سارا گھرانا مانند آفتاب تھا روشن روشن اور تابندہ‘ کہتے ہیں کہ حیدر آباد میں اپریل کے آخر سے چالیس دن تک جنوب مغرب کی سمت سے ہوا چلتی ہے جوچالیکا کہلاتی ہے اس ہوا کو مکانوں کے اندر تک لے آنے کیلئے لوگ اپنی چھتوں پر اونچے اونچے ہوادان کھڑے کر دیتے ہیں میں لوگوں سے ملا تو محسوس ہوا کہ خلوص اور خاطر داری کی یہ ہوا وہاں تمام سال چلتی ہے جسے دل و جان میں اتارنے کیلئے کوئی ہوا دان درکار نہیں میں چلنے لگا تو مٹھاخان میرے پاس آئے اور بولے اویار ہندوستان جارہے ہو راستے کیلئے اور کچھ تو دے نہیں سکتا میرا مٹکا ریکارڈ کرلو سفر کرتے جانا اور سنتے جانا‘ اور یہی ہوا میں دو مہینے تک سفر کرتا رہا، دو مہینے تک مٹھا خان کا مٹکا اور اس سے بڑھ کر اسکی تھاپ دل کی دھڑکن کی طرح میرے ساتھ چلی شکر ہے کہ دونوں نہیں رکے۔