امریکہ کی ٹو فرنٹ وار (دوسرا حصہ)

امریکہ کیلئے یوکرین اور تائیوان میں سے کوئی ایک محاذ بھی اتنا آسان نہیں جتنا افغانستان تھا، روس جو ہری ہتھیاروں سے لیس ہے اور چین نے عالمی منڈی میں ہر جگہ امریکہ کو چیلنج کر رکھا ہے یہ دونوں طاقتیں اگر اکٹھی نہ بھی ہوں تو ان میں سے ہر ایک امریکہ کیلئے Existential threat ہے یعنی اسکی بقا کیلئے خطرے کا باعث ہے صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس امریکہ جنگ کے نتیجے میں صرف دو ایٹمی طاقتیں ہی تباہ نہ ہوں گی بلکہ یورپ بھی راکھ کا ڈھیر بن جائیگا And then not just America and Russia, but also Europe will turn into radioactive ash بلا شبہ صدر پیوٹن نے تیس برس قبل سوویت یونین کی شکست کا حساب برابر کرنے کیلئے اپنی پسند کے وقت کا انتخاب کر لیا ہے وہ کسی بھی صورت یوکرین کو مغربی دنیا کا حصہ بننے نہیں دیں گے امریکہ میں عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ The Ukraine crisis is here to stay روس اگر حملہ نہ بھی کرے تو وہ ایک طویل عرصے تک یوکرین پر اپنی طاقت کا دباؤ برقرار رکھے گا یہ ایک ایسا منظر نامہ ہو گا جسمیں امریکہ اور یورپ دونوں کو مشکل سفارتی سرگرمیاں جاری رکھنا پڑیں گی مغربی دنیا کو تذبذب میں مبتلا رکھنے کیلئے روس یوکرین پر کسی زمینی یا فضائی حملے کے بغیر بھی دباؤ برقرار رکھ سکتا ہے اسکے پاس سائیبر اٹیک کا آپشن بھی ہے جسکا معمولی استعمال اسنے چند روز پہلے کیا تھا اس حملے میں اسنے یوکرین کی کئی وزارتوں کی ویب سائٹس اور کمیونی کیشن سسٹم فریز کر دئے تھے اسکے علاوہ  وہ بیلا رس اور Black Seaمیں جنگی مشقیں کر کے مشرقی یورپ کے ممالک میں خوف و ہراس پھیلا سکتا ہے ماسکو میں انٹر نیشنل ریلیشنز یونیورسٹی کے ڈین Andrie Sushentsov نے کہا ہے کہ موجودہ کشیدگی روس کی طرف سے پہلا قدم ہے اس منزل کی جانب جہاں مغرب مشرقی یورپ کیلئے ایک نئے دفاعی نظام کی اہمیت کو تسلیم کر لیگا Sushentsov نے ایک مغربی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوے کہا کہ روس کا مقصد یہ ہے کہ وہ جنگ کے خطرے کو برقرار رکھے تا کہ مغرب ان معاملات پر بات چیت کرے جنہیں اسنے گزشتہ تیس برسوں سے موقوف کیا ہوا ہے ماسکو یونیورسٹی کے ڈین نے کہا کہ ایک طویل عرصے تک مغربی یورپ کے لوگ اس تصور سے محظوظ ہو تے رہے کہ بر اعظم یورپ میں ایک نئی جنگ ناممکن ہے Sushentsov نے کہا روس کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اس سسپنس کو برقرار رکھے جو کسی بھی جنگ کے شروع ہونے سے پہلے موجود ہوتا ہے People are spoiled by an overly long peace یعنی یک طویل امن نے لوگوں کو بگاڑ دیا ہے وہ سمجھنے لگے ہیں کہ تحفظ مفت میں ملتا ہے وہ نہیں جانتے کہ اسے حاصل کرنے کیلئے مکالمہ کرنا پڑتا ہے۔مغربی تجزیہ نگاروں نے Sushentsov کے بیان پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ مغرب کو اب ایک نئی Forever war کیلئے تیار ہو جانا چاہئے یہ ایک ایسی جنگ ہو گی جسمیں وقت اور سرمائے کا بے دریغ استعمال ہو گا اور جس کیلئے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنانا بھی آسان نہ ہو گا امریکی ماہرین کے مطابق صدر پیوٹن نے افغانستان سے امریکہ کے بے ہنگم انخلا سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکہ اب کسی دور دراز تنازعے میں الجھنے کی ہمت نہیں رکھتا یوکرین امریکہ کیلئے تو دور دراز ہے مگر روس کیلئے ہر گز نہیں‘روس کے عسکری ماہر Ruslan Pukhov نے کہا ہے کہ روس کیلئے یوکرین کا نیٹو میں شامل ہونا ایک ایٹمی جنگ کے مترادف ہو گا اور یہ ایک ایسی جنگ ہو گی جسمیں روس تو تباہ ہو گا مگر وہ اپنے ساتھ امریکہ اور یورپ کو بھی لے ڈوبے گا اسمیں ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرے یا نہ کرے ہر دو صورتوں میں مغرب کو اسکے ساتھ مکالمہ کرنا پڑیگاPukhov  نے امریکی صحافی سے کہا کہ سفارتی بات چیت جنگ کے دوران بھی جاری رہتی ہے اور جنگ کے بعد تو اسکی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے اس گفتگو کے آخر میں Pukhovنے کہا کہ روس نے اب یہ گذارشات کرنا بند کر دی ہیں کہ اسے سنا جائے۔اس پالیسی نے آج تک کوئی نتیجہ نہیں دیا اسلئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ روس کو نظر انداز کرنے کے مضمرات ہوں گے۔صدر پیوٹن جانتے ہیں کہ بیس سالہ افغان جنگ کے بعد تھکے ہارے واشنگٹن میں اب یوکرین کیلئے ایک نئی اور طویل جنگ لڑنے کی ہمت نہیں ہے صدر بائیڈن نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ There is not going to be any American forces moving into  Ukraine اسوقت امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں میں ایک بھی ایسا عقاب نہیں جو یوکرین کیلئے امریکی فوجی مروانے پر آمادہ ہو صدر بائیڈن اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ روس کے پاس 4500 نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں اور مغرب کیساتھ کسی conventional یا روایتی جنگ میں اگر روس کو میدان ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے گریز نہیں کریگایوکرین کا تنازع اتنا اہم ہے کہ امریکہ کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ اسے ایک منٹ کیلئے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہتی ایسے میں اگر چین تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ اسکا مقابلہ کیسے کریگا اس منظر نامے کا جائزہ اگلے کالم میں لیا جائیگا۔