سکھر کے عجائبات

اپنی کتاب ’تیس سال بعد“ میں پاکستان کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے مشہور براڈکاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ خدا خدا کرکے سکھرآگیا لائیڈز بیراج کا سکھر‘ سکے اور جیب کے ذکر پر یاد آیا کہ یہ قصہ نیا نہیں جن دنوں ہمارے انگریز حاکم سکھر بیراج بنوا رہے تھے جو سنہ1923ء میں شروع ہوا اور1932ء میں پورا ہوا اس وقت کے کاغذوں میں حکام نے لکھا ہے کہ جو مقامی ٹھیکے دار چھوٹے موٹے کام سرانجام دے رہے ہیں خیال رہے کہ انہیں جہاں بھی موقع ملے گا یہ پیسوں میں گڑ بڑ کرینگے گڑبڑاگر چھوٹی موٹی ہو تو درگزر کر دینا‘ سکھر کے بارے میں ہم بچپن سے سنتے آئے تھے کہ یہاں سب سے اچھے بسکٹ بنتے ہیں غنیمت ہے ہم سکھر کو اتنا تو جانتے تھے برصغیر اور وسط ایشیا کے سارے تجارتی راستے یہیں سے گزرتے تھے اس زمانے کے اس نہایت اہم شر کا نام اروڑ تھا سنا ہے کہ اس شہر کے کھنڈراب بھی موجود ہیں مگر نہ کوئی بتاتا ہے اور دکھاتا ہے سکندراعظم یہاں سے گزرا پھر سنہ712عیسوی میں مسلمان  ایک نو عمر سپاہ سالار محمد بن قاسم کی قیادت میں یہاں آئے۔ اس جگہ انہوں نے ایک مسجد بنائی جو آج بھی موجود ہے سکھر کی گرمی کا یہ قصہ بھی سن لیجئے کہ باقی ملک کو کراچی کی بندرگاہ سے ملانے کیلئے تین ہزار تین سو ٹن وزنی ریل کا پل لندن سے لاکر یہاں دریا کے اوپر دوبارہ بنایا گیا اور25 مارچ1889ء کو گورنر بہادر اس کا افتتاح کرنے بمبئی  سے تشریف لائے تو گرمی اتنی سخت تھی اور تمام سفید فام مہمانوں کے لباس اتنے دبیز تھے کہ پل کا  افتتاح صبح سورج نکلنے سے پہلے کرنا پڑا پھر مہمانوں نے پیدل چل کر پل کی سیر کی اور دیکھا کہ اتنے بڑے بھاری بھر کم‘ الجھے ہوئے پیچیدہ ڈیزائن پر لندن میں بیٹھے ہوئے انجینئروں نے کتنا ذہن کھپایا ہوگا اور ہندوستان میں موجود غریب مزدوروں نے کس قدر مشقت اٹھائی ہوگی کہ کتنے بہت سے تو سروں پر اوزار گرنے سے مرگئے تھے ایسا وزنی اور مضبوط پل بھی ریل گاڑی گزرنے پر کراہنے لگا اور میرے وہاں جانے سے کوئی تیس پہلے پرانے پل کے پہلو میں ایک نیا پل اس شان سے بنایا گیا کہ امریکہ کے ایک من چلے انجینئر نے اس کا نقشہ یوں بنا دیا جیسے یہ اسکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو اس نہایت ستواں‘ خوش وضع لیکن سیدھے سادے پل کی تعمیر پر صرف دو کروڑ کی لاگت آئی اور اسے ایوب برج کا نام دیا گیا روہڑی کے غلام محمد بیراج کی طرف ایوب برج کا نام بھی مٹ گیا یوں تو شکسپیئر  کہہ گئے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن میں نے اسے راستے سے گزرنے والے باربردار ٹرکوں کی پشت پر آج تک لکھا دیکھا تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘  اگلے وقتوں کے لوگوں نے یہاں یاد آنے کیلئے بہت نشانیاں چھوڑی ہیں سب سے بڑھ کر معصوم شاہ کامینار ہے معصوم شاہ مورخ تھے سپاہی بھی تھے اکبر بادشاہ نے انہیں علاقے کا گورنر مقرر کیا تھا ان ہی دنوں یہی کوئی1607ء کے قریب انہوں نے یہ مینار بنوایا میں اس کی چوراسی سیڑھیاں چڑھ کر چوٹی تک گیا اس بات کی تصدیق کرنے کے شہر کے پہرے دار وہاں سے دور دور کے علاقے پر نگاہ رکھتے تھے مان گیا کہ رکھتے ہونگے اس زمانے میں یہ منظر سکھر بیراج سے بھی محروم تھا اور لینس ڈاؤن برج سے بھی‘ ہر جانب نکلتی نہروں سے بھی اور تاحد نگاہ پھیلے ہوئے سبزے سے بھی۔ میں مینار پر اس لئے بھی چڑھا کہ سنا تھا سکھر کا میناراٹلی کے ایک مشہور مینار کی طرح ایک طرف کو جھک رہا ہے سوچا ابھی اوپر جا کر دیکھ لوں مگر آخری اطلاعات آنے تک سید نظام الدین میر محمد معصوم شاہ بھکری کی یہ یادگار صحیح اور سالم تھی۔ میرے میزبان مجھے وہاں لے گئے تو میں ان پر خفا ہوا ان ادھر ادھر منتشر قبروں کے بیچ میں نے شکایت کی کہ وہ مجھے شہر کی گلیوں میں لئے لئے پھرے‘ سیدھے یہاں کیوں نہیں لائے کہ عظیم دریائے سندھ کے کنارے ایسا پرفضا مقام کہیں اور نہیں ہو سکتا مغل دور کے درودیوار ٹھٹھہ کے کوہ مکلی کے مقبروں جیسے نقش و نگار قدیم ٹائلوں سے آراستہ محرابیں اور اس ذرا اونچے ٹیلے سے لگا لگا نیلگوں دریائے سدھ جس کی دھیمی دھیمی سی لہروں کے پچھواڑے اس وقت سورج ڈوب رہا تھا۔