اپنی کتاب ”تیس سال بعد“میں مشہور براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی لاہور کے حوالے سے اپنی یاداشتو میں لکھتے ہیں کہ لاہور دنیا کے اس خطے کا واحد شہر ہے جو وقت کیساتھ بدلا تو ضرور لیکن بگڑا نہیں۔وہی سرگرمیاں‘وہی رونق‘وہی کھانے پینے کا اہتمام اور ادب‘روایت اور ثقافت کی ویسی پذیرائی۔جس وقت ملک کے دوسرے علاقوں میں دھماکے ہو رہے تھے‘ لاہور میں موسیقی کی نہایت عمدہ محفل آراستہ تھی۔مگر پھر کیا ہوا؟بھگڈر مچی، تین طالبات روندی گئیں،کئی غش کھا گئیں،اور حکام شہر والوں کویہ کہہ کر داد دیتے کہ دیکھئے زندہ دلان لاہور نے حالات کا کیسی بہادری سے مقابلہ کیا۔وہ کیا جانیں کس پر کیسا گزری۔مگر ان تیس برسوں میں بہت سے لوگ اِدھر اُدھر رل گئے۔ٹاؤن شپ کا وہ علاقہ میں نے جس کے گاؤں میں ایک شام گزراری تھی‘پھیلتے ہوئے شہر کے اند ر آچکا ہے اور لاہور اس تیزی سے پھیلتا جار ہا ہے کہ اگر کچھ دور ہندوستان نہ ہوتا تو سرحد پار کر کر جاتا اور وہ بھی کسی سفری دستاویز کے بغیر۔گاؤں کے شوکت علی نمبردار اور چوہدری برکت خدا جانے کہا ں گم ہوگئے۔صاحبِ حیثیت اورصاحبِ ثروت ہوتے تو ڈھونڈلیے جاتے۔غریب ہونے میں بڑے گھاٹے ہیں۔واصف علی واصف صاحب نے اس دوران اپنی علمی تحریروں سے بہت شہرت پائی۔وہ چل بسے اور ان کا مزار بن گیا جہاں سنا ہے عرس بھی ہونے لگا ہے۔پچھلے دنوں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک اہم فیصلے میں ان کا کوئی مقولہ بھی نقل ہوا۔ان کے ہاں حاضری دینے والے اشفاق احمد اوار حنیف رامے بھی اس دوران اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن یا د رکھے جاتے ہیں۔اس زمانے میں یہ بھی کم ہے۔ ایک اور مقام پر میانوالی کا تذکرہ کرتے ہوئے رضاعلی عابدی رقم طراز ہیں کہیہ میانوالی کا قصہ ہے‘مجھے وہاں سے ایک نو عمر طالب علم خط لکھا کرتا تھا لکھتا تھا کہ مجھے ہوائی جہازوں کا دیوانگی کی حد تک شوق ہے ٗ میں ہوائی جہازوں کا انجینئر بننا چاہتا ہوں‘اسکا یہ اشتیاق دیکھ کر میں نے اسے لندن سے ہوائی جہازوں کے بارے میں ایک اچھی سی کتاب بھیج دی اور پھر میں بھول بھال گیا‘ البتہ میانوالی پہنچتے ہی مجھے اس نوجوان کا خیال آیا مگر مجھے تو اب اس کا نام تک یاد نہیں تھا‘ صرف اسکے محلے زادے خیل کا نام یاد رہ گیا تھا۔میں نے اپنے میزبانوں کو یہ ساری بات سنائی اور کہا کہ جی چاہتا ہے کہ جا کر اس سے ملوں اور اس کی ہمت بڑھاؤں‘وہ لوگ بولے کہ محلہ زادے خیل یقینا موجود ہے مگر لڑکے کا نام یاد نہیں تو وہ کیسے ملے‘میں نے کہا کہ مجھے اس محلے میں لے چلئے ٗمیں اس مخلوق کو جانتا ہوں جس سے زیادہ محلے کا حال کوئی اور نہیں جانتا۔اب جو ہم چلے تو میزبانوں کا قافلہ ساتھ ہو لیا۔ اتنے میں محلہ زادے خیل آگیا‘میرے قافلے والے ہر آتے جاتے بزرگ سے پوچھتے لگے۔ ”یہاں کوئی نوجوان رہتا ہے جسے ہوائی جہازوں کا شوق ہے؟اس محلے میں کوئی لڑکا رہتا ہے جو ہوائی جہازوں کے پیچھے دیوانہ ہے‘سارے بزرگ نفی میں گردنیں ہلاتے رہے۔اس وقت میری نگاہیں ان لوگوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جن سے کسی گلی کسی محلے کا حال چھپا نہیں رہتا۔نو عمر لڑکے!اچانک بارہ بارہ تیرہ تیرہ سال کے تین لڑکے نظر آئے جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جھومتے چلے جا رہے تھے میں لپک کر ان کے پاس گیا اور بولا کہ بیٹے! اس محلے میں کوئی لڑکا رہتا ہے جسے ہوائی جہازوں کا بے حد شوق ہے؟میرا یہ پوچھنا تھا کہ بچوں نے میری انگلی پکڑی اور لے جاکر ایک مکان کے سامنے کھڑا کر دیا اور بولے’یہاں رہتا ہے وہ۔“ہم سب نے بڑے اشتیاق سے دستک دی۔ امید تھی کہ ایک شاہین صفت ٗہونہار ٗسعادت مند لڑکا برآمد ہوگا اور مجھے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کربے حد خوش ہوگا وہ تو نہیں آیا۔ دروازے پر اس کی والدہ آئیں۔میں نے اپنے آنے کا مدعا بتایا‘وہ بولیں:”شہزاد؟وہ تو سرگودھا چلا گیا ہے“میں نے پوچھا کیوں؟کہنے لگیں:اسے ائیرفورس کے سکول میں داخلہ مل گیا ہے ایک دو برس میں وہ ہوائی جہازوں کا انجینئر ہو جائے گا۔ہے……واقعی باکمال لوگوں کا شہر ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات