کتاب سے محبت کرو

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ہم نے ملک تیونس کی ایک تصویر دیکھی، یومِ کتاب کے موقع پر تعلیمی اداروں کے لڑکے لڑکیاں تیونس کی شاہراہ بو رقیبہ کے درمیانی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے، یہاں سے وہاں تک، تاحدِ نگاہ جوان لڑکے لڑکیاں کتابیں کھولے بیٹھے ہیں اور انہماک سے سر جھکائے پڑھ رہے ہیں۔ یہ دنیا والوں کیلئے پیغام کا ڈھنگ ہے کہ کتاب سے محبت کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کتاب کا احترام کرو۔ ہمارے معاشرے میں کتاب کو ہمیشہ بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ کتاب سے محبت کی نشانیاں ہم نے ان لوگوں کے ہاں دیکھیں جو کتاب کو عزیز از جان تصور کرتے ہیں۔ مجھے ملتان کے لطیف الزماں خاں مرحوم ہمیشہ یاد رہیں گے جن کے پاس غالب کے موضوع پر کتابوں کا بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ میں خاص طور پر ان کے گھر گیا اور دیکھا کہ سینکڑوں کتابوں پر کاغذ چڑھا کر بڑے سلیقے سے آراستہ کر رکھا ہے۔ اوپر سے یہ کہ ہر کتاب کا ریکارڈ محفوظ ہے کہ کہاں رکھی ہے اور لمحہ بھر میں کیسے نکالی جائے۔ خود چونکہ نہایت خوش خط تھے، کتابوں کا رجسٹر دیکھنے کے قابل تھا۔سنا ہے غالبیات پر ویسا ہی ذخیرہ آنجہانی کالی داس گپتا رضا کے پاس بھی تھا۔ وہ چونکہ بمبئی میں تھا، میں وہاں تک نہ پہنچ سکا۔  مجھے یہ شرف حاصل رہا ہے کہ کتابوں کی زیارت کیلئے میں نے دور دور کے سفر کئے اور نہ پوچھئے کیا کیا دیکھا۔ میرے بڑے دورے کا مرکزی خیال ہی یہ تھا کہ دیکھیں بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں کہاں اور کس حال میں ہیں۔ کہیں تو یوں رکھی تھیں کہ جیسے پلکوں سے جھاڑ پونچھ کر سجائی گئی ہوں، کہیں کتابیں نڈھال پڑی تھیں، کہیں دیواروں پر دیمک نے آمدورفت کے رستے تراشے ہوئے تھے، کہیں معلوم ہوا کہ چند روز پہلے تک بڑا ذخیرہ رکھا تھا لیکن مقدس جان کر انہیں دریا میں بہا دیا گیا۔ ایک جگہ کسی نے کتابوں کا ذخیرہ پلاسٹک کے تھیلوں میں باندھ کر کنویں میں ڈال دیا تھا، جھنڈیر لائبریری والوں نے کنویں میں اتر کر نکالیں تو ان میں ایک سے ایک نادر اور نایاب کتابیں تھیں جو شکر ہے کہ اب محفوظ ہیں۔ کیسے زمانے تھے جب امرا اور روسا دور دراز کے سفر پر نکلتے تھے تو ان کی کتابوں کا ذخیرہ ساتھ چلا کرتا تھا۔جس زمانے میں ہندوستان کے نواب، راجا اور مہاراجا اپنے کتب خانے پر ناز کیا کرتے تھے اور چونکہ دولت بہت تھی، دنیا بھر کی نادر اور نایاب کتابیں کھنچی کھنچی ہندوستان چلی آتی تھیں۔ تاتاریوں نے جو لاکھوں کتابیں دریا میں پھینکی تھیں، ان میں سے بچائی جانے والی کچھ کتابیں پٹنہ کی لائبریری میں محفوظ ہیں، اِسی طرح ہسپانیہ میں عربوں کے دیس نکالا کے بعد عظیم الشان کتابوں کے جو الاو جلائے گئے تھے، ان میں ادھ جلی کتابیں رام پور تک آگئی تھیں۔ بھوپال تو علم کا گہوارہ تھا، وہاں کے شاہی محل میں نہ جانے کتنی کتابیں آج تک رکھی ہیں، پتا نہیں سلامت ہیں یا نہیں۔