دریا کے فائدے؟

مشہور براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی اپنے ایک سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہماری جیپ اس بستی میں جاپہنچی جس بستی والوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جب گاڑی یہاں پہنچتی ہے‘وہی کھانے کا وقت ہوتا ہے چنانچہ بستی والوں نے وہاں بڑا سا ہوٹل کھول دیا تھا دکانیں بنا دی تھیں اور سایہ دار درخت لگادیئے تھے‘میں اترا تو گاؤں والوں نے حلقہ کرلیا ہر ایک مجھ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ میں کون ہوں اور خود بتانا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے‘ ان لوگوں میں محمد جمیل بھی تھے چہرے بشرے سے ذہین‘مہذب اور تعلیم یافتہ‘ میں نے ان سے پوچھا کہ آپکی یہ بستی کتنی پرانی ہے؟ یہ بہت پرانی ہے سر! کافی سالوں سے ہے میرے دادا وغیرہ یہیں آباد تھے‘25گھر ہیں یہاں پرسر اور آبادی پورے تین سو افراد پر مشتمل ہے میں نے پوچھا ’لوگ کیا کرتے ہیں روزی کے لئے‘سر! یہ کھیتی باڑی کرتے ہیں ان کی اپنی زمینیں ہیں اور ایک دو لوگ ہیں جو کاروبار کرتے ہیں‘ آپ کیا کرتے ہیں؟ سر میں نے ایف ایس سی کیا ہے اس سال‘آپکے اس گاؤں میں کچھ اور نوجوان بھی تعلیم پارہے ہیں؟ جی سر‘ آٹھویں جماعت تک پڑھ رہے ہیں اس سے آگے کا انتظام نہیں ہے میں اکیلا ہوں جس نے ایف ایس سی کیا ہے یہ سوچ کر کہ محمد جمیل نے سائنس کی تعلیم پائی ہے میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں جو کھیت اور باغ نظر آرہے ہیں ان کو سیراب کرنے کیلئے پانی کہاں سے اور کیسے لاتے ہیں؟ ان کا جواب ادب اور احترام کی جدید علامت ہی سے شروع ہوا سر ایک دو ایسے گاؤں ہیں جہاں پر چھوٹے چھوٹے چشمے ہیں چشموں کے پانی سے ہم کاشت کرتے ہیں ایک دوگاؤں ایسے ہیں جہاں پر گرمیوں میں برف کا پانی آتا ہے تو جب پانی آتا ہے ہم کاشت کرتے ہیں نیچے وادی کی تہہ میں چٹانوں سے سرپٹختے دریا کی طرف اشارہ کرکے میں نے محمد جمیل سے پوچھا‘اور یہ جو نیچے کی تہہ میں اتنا بڑا دریا بہہ رہا ہے؟ یہ دریا ویسے ہمارے کسی فائدے کا نہیں ہے ہم اس سے صرف مچھلیاں پکڑتے ہیں اور کسی کام کا نہیں ہے سر’اتنا بڑا دریائے سندھ اتنی چھوٹی سی بستی کے کسی کام کا نہیں یہ سن کو حیرت ہوئی وہیں میری ملاقات فدا حسین سے ہوئی کچھ دور کے گاؤں تھوار میں رہتے ہیں مگر کہنے لگے کہ ڈیوٹی یہاں شنگس میں کرتا ہوں میں نے پوچھا کہ کیا ڈیوٹی ہے آپ کی؟ میں سکول ماسٹر ہوں جناب‘ پڑھاتے ہیں آپ؟ میں ایف اے تک پڑھا ہو ں سر‘فدا حسین کی زبانی بہت سی شکایتیں سن کر میں نے پوچھا آپکے علاقے کے بڑے بوڑھے اور بزرگ کیا کہتے ہیں پرانا زمانہ زیادہ اچھا تھا یا اب زندگی کی سہولتیں زیادہ ہیں؟ وہ بولے ہمارے بزرگ لوگ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں بہت تکلیف تھی راستے خطرناک تھے کھانے پینے کی اشیاء نایاب تھیں بہت تکلیف تھی اب تو روڈ بن گئی ہے روڈ کی وجہ سے ہر چیز کی سہولت ہوگئی ہے۔ ایک اور مقام پر رضا علی عابدی ماریشس جزیرے کی زبان سے متعلق لکھتے ہیں کہ زبان کے معاملے میں ماریشس ایک بہت بڑی تجربہ گاہ ہے زبانیں کیسے جیتی ہیں‘ کیسے مرتی ہیں اورکس طرح اپنے روپ بدلتی ہیں اس کابھرپور مظاہرہ ماریشس میں ہوا ہے۔ یہ جزیرہ پہلے پہل اس تختی کی مانند تھا کہ جس پر نہ ملتانی مٹی پوتی گئی تھی نہ سیاہی کا ڈوبا لے کر قلم چلایا گیا تھا۔ اس جزیرے میں پہلے پہل کوئی نہیں رہتا تھا۔سب سے پہلے عرب آئے اور چلے گئے۔ ان کے بعد پرتگالی آئے مگر ان کا دل نہیں لگا۔ پھر ولندیزی آئے اور زمینوں سے فصلیں اگانے کے لئے جاوا‘ ملایا‘ ہندوستان اور افریقہ سے غلام لائے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ اس وقت قبضہ کرنے والی گوری قوموں میں یہی ولندیزی سب سے زیادہ ظالم تھے۔ انہوں نے غلاموں کو اس طرح رکھا ہوگا کہ وہ آپس میں مل نہ سکیں اورماریشس کی کوئی اپنی زبان وضع نہ ہو سکے۔