جنوری میں تائیوان کی صدر Tsai Ing Wen نے ایک تقریب میں کہا کہ یوکرین پر روس کے ممکنہ حملے کا چین اور تائیوان تنازعے کیساتھ گہرا تعلق ہے اس خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہاکہ کسی طاقتور ملک کا ہمسایہ ہونا کوئی آسان بات نہیں اس تذبذب اور خلفشار کو صرف تائیوان اور یوکرین ہی سمجھ سکتے ہیں چین 1949 کی خانہ جنگی کے اختتام پر تائیوان کو چھوڑ کر جا چکا تھا مگر اسنے ہمیشہ اسے اپنا جزو لاینفک سمجھا ہے امریکہ نے 1949 میں تائیوان کو تسلیم کر لیا تھا مگر 1979 میں جب صدر رچرڈ نکسن اور سیکرٹری آف سٹیٹ ہینری کسنجر نے پاکستان کے سفارتی رابطوں کی مدد سے چین کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات استوار کرنیکی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں تائیوان کو تسلیم کرنیکے فیصلے کو تبدیل کرنا پڑا چین کسی بھی ایسے ملک سے تعلقات قائم نہیں کرتا جس نے تائیوان کو تسلیم کر رکھا ہو اسوقت صرف تیرہ ممالک نے چین کے اس حصے کو ایک الگ ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہو اہے چین کے وضع کردہ اس اصول کو One China Principle کہا جاتا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ چین اور تائیوان ایک ہی ریاست ہیں اس اصول کو تسلیم کرنے کے باوجود امریکہ سینکڑوں ملین ڈالر کا اسلحہ تائیوان کو فروخت کرتا ہے اور دونوں ممالک ہر سال اربوں ڈالر کی تجارت بھی کرتے ہیں واشنگٹن کے اس تعاون کیوجہ سے تائیوان اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ وہ اپنی الگ حیثیت منوانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چین اسے ایسا نہیں کرنے دیگا اس پیچیدہ صورتحال میں یہ ابہام موجود ہے کہ اگر چین نے تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش کی تو امریکہ کیا کریگا۔ امریکہ نے آج تک یہ نہیں کہا کہ وہ تائیوان کی آزادانہ صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی فوج بھیجے گا یا نہیں اس Strategic Ambiguityیا تزویراتی ابہام کی پالیسی کیوجہ سے امریکہ اور چین نے سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اب یوکرائن پر امریکہ روس کشمکش کے بعد یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا بیجنگ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوے تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش تو نہیں کریگا اسوقت امریکہ یورپی ممالک کو متحد رکھنے اور روس کو ایک بھرپور جواب دینے کی مشکل میں اس حد تک الجھا ہوا ہے کہ اسکے پاس کسی دوسرے عالمی تنازعے کی طرف توجہ دینے کا وقت نہیں ہے شمالی کوریا نے جنوری میں بیلسٹک میزائلوں کے سات تجربے کئے مگر امریکہ نے صرف ایک آدھ بیان کے علاوہ اسے کوئی جواب نہیں دیا اس سے پہلے شمالی کوریا کی ایسی ہٹ دھرمی کے جواب میں امریکہ جنوبی کوریا کیساتھ ملکر جنگی مشقیں شروع کر دیتا تھا دو ہفتے پہلے چین نے تائیوان کی ائیر ڈیفنس زون میں 39 جہازوں کا ایک دستہ بھیجا امریکہ نے اسکا بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیا اسکے بعد امریکی میڈیا میں بائیڈن انتظامیہ پر سخت تنقید ہوئی کہ وہ خارجہ پالیسی کے ایک ہی مسئلے میں اسقدر الجھی ہوئی ہے کہ اسکے پاس کسی بھی دوسری طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے میڈیا کے اس شور کو ختم کرنے کیلئے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے گذشتہ ہفتے ایشیا پیسیفک کے ممالک کا دورہ کیا جنوبی کوریا‘ جاپان‘ فجی اور آسٹریلیا جا کر سیکرٹری بلنکن نے انہیں یقین دلایا کہ امریکہ اس خطے میں اپنی دفاعی اور تجارتی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور وہ ان ممالک میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔تائیوان اور یوکرین کے حالات میں مماثلت اتنی زیادہ نہیں مگر ایشیا پیسیفک کے ممالک نے تزویراتی حساب کتاب شروع کر دیا ہے وہ پوچھ رہے ہیں کہ چین کی تائیوان پر پیشقدمی کی صورت میں واشنگٹن بیجنگ کے خلاف عسکری کاروائی کریگا یا صرف اقتصادی پابندیاں لگانے پر اکتفا کریگا امریکہ کے دفاعی ماہرین کے مطابق چین یوکرین کی صورتحال کے بارے میں یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ امریکہ نے اسوقت اپنی توجہ اور وسائل اس حد تک روس کا مقابلہ کرنے کیلئے وقف کئے ہوئے ہیں کہ اسے کسی بھی دوسری جنگ میں الجھنے کی فرصت نہیں ہے امریکہ کی اس ممکنہ ٹو فرنٹ وار میں چین اگر تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کرتا تو اسکی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اس سوال کا جائزہ اگلے کالم میں لیا جائیگا۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی