آج کل امریکی تجزیہ نگار روس کی جنگی حکمت عملی پر بحث مباحثہ کرنے کے علاوہ یہ سوچ بچار بھی کر رہے ہیں کہ چین یوکرائن کے بحران میں امریکہ کے الجھنے کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی دفاعی سٹیبلشمنٹ کو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ امریکہ‘ روس اور یوکرین کے تنازعے میں اس حد تک الجھا ہوا ہے کہ وہ وسائل جو تائیوان کے دفاع کے لئے استعمال ہو سکتے تھے اب ان کا ایک بڑا حصہ یوکرین کو روس کے تسلط سے بچانے کے لئے وقف کر دیا گیا ہے جو بات یوکرین اور تائیوان تنازعوں کے تمام فریقین جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ جس طرح Kyiv روس کے ممکنہ حملے کی صورت میں نیٹو ممالک کی عسکری اور معاشی معاونت کا طلب گار ہے اسی طرح Taipei بھی چین کی کسی پیش قدمی کی صورت میں امریکہ کا دست نگر ہو گا تائیوان کی کل تک تزویراتی سوچ یہ تھی کہ چین کے حملے کی صورت میں امریکہ ضرور اس کی مدد کو آئے گا اب اگر مغربی طاقتیں روس کو مؤثر جواب دینے میں ناکام رہتی ہیں تو اس سے ایک طرف چین کی تائیوان سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلی آ سکتی ہے اور دوسری طرف تائیوان بھی امریکہ سے مایوس ہو سکتا ہے۔تائیوان اور یوکرین کے درمیان 5040 میل یا 8063 کلو میٹر کا فضائی فاصلہ ہے ان دونوں وار تھیٹرز پر نگاہ رکھنے والے دفاعی ماہرین کی رائے میں یہ فاصلہ اس وقت سمٹ گیا جب چند روز پہلے روس کے صدر پیوٹن نے بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ونٹر اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں ملاقات کی۔چین کے صدر نے اس موقع پر کھل کر روس کی حمایت کی اور نیٹو کی جارحانہ پالیسیوں کی مذمت کی۔دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ نیٹو ممالک ایک طرف روس کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہے ہیں تو دوسری طرف امریکہ جنوبی چین کے سمندر میں بیجنگ کے خلاف جارحانہ اقدامات کر رہا ہے۔اس اعلامیے میں اگر چہ کہ یوکرین کا نام نہیں لیا گیا جو صدر پیوٹن کے لئے مایوسی کی بات ہو گی مگر اس میں نیٹوکے توسیعی عزائم کا اتنے واضح انداز میں ذکر کیا گیا ہے کہ جتنا پہلے نہیں کیا گیا تھا اس کے جواب میں صدر پیوٹن نے تائیوان کو چین کاan inalienable part یعنی جدا نہ ہو سکنے والا حصہ قرار د یا۔تائیوان کی وزارت خارجہ نے اس مشترکہ اعلامیے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چین روس کے ساتھ مل کر سرمائی اولمپکس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔اس بیان میں کہا گیا کہ تائیوان کے عوام اور دنیا بھر کے جمہوری ممالک اس گٹھ جوڑ کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔دونوں ممالک کے مشترکہ بیان میں یورپ اور ایشیا ء میں امریکہ کے Inter Mediate Range Missiles کی تنصیب کو اشتعال انگیز اقدامات قرار دیا گیا۔چین اور روس نے امریکہ کے AUKUS منصوبے پرسخت الفاظ میں تنقید کی۔اس سہ طرفہ دفاعی منصوبے کے تحت امریکہ اور برطانیہ مل کر آسٹریلیا کو نیوکلیئر اسلحے سے لیس سب میرین بنانے میں مدد دیں گے۔ان جوہری آبدوزوں کو انڈو پیسیفک علاقے میں استعمال کیا جائے گا۔چین کے ریاستی میڈیا نے تائیوان‘ جاپان‘ فلپائن اور جنوبی کوریا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو ممالک کے اتحاد میں اتنی دراڑیں ہیں کہ وہ مل کر روس کے مقابلے میں یوکرین کا دفاع نہیں کر سکتے۔ایسے میں یہ امید باندھنا کہ وہ کسی بحران میں انڈو پیسیفک ممالک کا دفاع کر سکیں گے ایک طفلانہ سوچ ہے۔بیجنگ یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز کے پروفیسر Shi Yinhong نے ایک امریکی صحافی کودیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ یورپ کا بحران اگر طویل ہوتا ہے تو امریکہ انڈو پیسیفک ممالک کا دفاع کرنے کی صلاحیت کھو دیگا۔ پروفیسر Yinhong نے کہا کہ The United States is in a sorry plight right now ان کی رائے میں یوکرین کے بحران سے چین کو کافی تقویت ملی ہے اور امریکہ کو یہ سوچنا ہوگا کہ چینی افواج اس وقت Battle ready ہیں اور وہ کسی بھی تصادم کے لئے تیار ہیں۔چینی ماہرین کی رائے میں تائیوان کی سفارتی صورتحال اس لئے خاصی کمزور ہے کہ اسے صرف تیرہ ممالک نے تسلیم کیا ہے اس صورت میں اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو اقوام عالم کے لئے اس کے کمزور سفارتی سٹیٹس کی وجہ سے اس کا دفاع کرنا مشکل ہو گااس کے مقابلے میں یوکرین بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جمہوری ملک ہے پروفیسر Yinhong کی رائے میں Taiwan's status as a nation state is very weak اس تجزیئے کے مطابق تائیوان پر قبضہ چین کے لئے زیادہ مشکلات کا باعث نہیں بن سکتا۔صدر شی جن پنگ تائیوان کو چین میں شامل کرنے کو اپنے ویژن کا اہم حصہ قرار دے چکے ہیں۔یہ تمام Pieces of the puzzleاگر تزویراتی چیس بورڈ پر سامنے پڑی ہیں تو پھر چین تائیوان کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں کرتا۔ دفاعی ماہرین کی رائے میں چین نے جب کبھی بھی تائیوان پر فوج کشی کا فیصلہ کیا تو اسے پہلے اپنی افواج کو متحرک کرنا ہو گااور یہ تحرک پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔امریکہ کے عسکری اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک چین تائیوان کو فتح کرنے کی تیاری کرتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔اس کی ایک وجہ بیجنگ کا یہ اندازہ ہے کہ امریکہ ابھی تک یوکرین کی دلدل میں اتنا گہرا نہیں اترا کہ وہ تائیوان کی طرف توجہ نہ دے سکے۔چین کے اس فیصلے کی مزید وجوہات کا ذکر اگلے کالم میں ہو گا۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی