نوشتہ دیوار

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہشیر شاہ کی شاہراہ اعظم پاکستان میں جہلم کے قریب قلعہ رہتاس کے پہلو سے لگی رہا کرتی تھی رات دن سینکڑوں ہزاروں قافلے اور کاروان ادھر سے گزرا کرتے تھے کسی شہ رگ میں دوڑنے والے خون کی طرح مگر بعد میں انگریزوں نے اس سڑک کوندی نالوں کے اس علاقے سے ہٹاکر پانچ میل دور دنیا کی طرف موڑ دیا اب جدھر سے سڑک گزرتی ہے ادھر سے خلق خدا گزرتی ہے اور رہتاس تنہا کھڑا ہے میں صبح تڑکے راولپنڈی سے جیپ میں بیٹھ کر رہتاس پہنچا ابھی اتنا سویرا تھاکہ دنیا سے جہاں ہماری گاڑی رہتاس جانے والی تنگ اور خستہ حال سڑک پر مڑی وہاں گاڑیوں سے محصول لینے والا شخص بھی ڈیوٹی پر نہیں آیا تھا اور جس وقت ہم قلعے کے دروازہ خواص خانی پر پہنچے تو صبح کے سورج کی پہلی کرنوں میں یہ ساڑھے چار سو سال پرانی عمارت یوں لگی جیسے سونے کے پانی میں نہائی ہو رہتاس قلعے کے بارہ شاندار دروازے‘ستر کے قریب برج‘دوہزار سے ذرا کم کنگرے‘ ساڑھے نوہزار سیڑھیاں‘ پانچ نقار خانے‘تین باؤلیاں ایک شاہی مسجد‘پھانسی خانہ اور شیر پنجرہ دیکھتے ہوئے ہم آگے چلے بہت بلند رانی محل کا نظارہ کرتے ہوئے ہم سفید محل کی سڑھیاں چڑھے وہ عالم اس خواب جیسا تھا کہ جس میں کتنی ہی سیڑھیاں چڑھیں وہ ختم ہونے کو نہیں آتیں اس روز کی سیڑھیاں طے کرتے جب ہم اس بلندی پر پہنچے جہاں ایک بڑا کمرہ تھا اور جس میں ہرطرف جھرو کے کھلتے تھے اور ٹھنڈی ہوا فراٹے بھرتی تھی اور ترکی کے پہاڑوں سے راجا پورس کے میدان جنگ تک تلے اوپر منظر ہی منظر دکھائی دیتے تھے یہ عمارت اب حویلی مان سنگھ کہلاتی ہے کبھی اکبر کا یہ سپہ سالار یہاں رہا ہوگا اینٹوں کی اس عمارت کے اندر کبھی چینی کے برتنوں جیسا روغنی پلاسٹر کیاگیا ہوگا جو کبھی کا گرگرا کر برابر ہوا البتہ اس پلاسٹر کا ایک حصہ ایک جھروکے کی چھت میں بچا ہے میں قریب جاکر اسے غور سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا خبر پرانے زمانے کے لوگ اس دیوار پر کچھ لکھ گئے ہوں اچانک میری نگاہ کچھ تحریروں پر جم گئی وہ جو پرندوں کے پرتراش کر قلم بنائے جاتے تھے اور انہیں سیاہی میں ڈبو کر لکھا جاتا تھا‘ ان ہی قلموں سے جھروکے کی چھت پر کچھ لکھا ہوا تھا یہ دیکھو‘یہ دیکھو‘مہم قندھار‘ میں چھوٹے بچوں کی طرح چلایا اور قلعے کے وہ تمام باشندے جو ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے وہاں آگئے کسی نے اوپر چڑھ کر ان تحریروں کو پڑھا تو’مہم قندھار‘ کے علاوہ وہاں فارسی شعر لکھے تھے کچھ لوگوں کے نام اور کچھ تاریخیں درج تھیں۔ یہ کوئی باقاعدہ کتبے تو نہیں ہیں‘ ظاہر بات ہے کہ وہاں کچھ دیر کو جو سپاہی یا امرا ٹھہر گئے تھے ان لوگوں میں غالباً شعر و شاعری کا مشغلہ تھا تو ان لوگوں نے جو شعر کہے وہ دیوار پر لکھ دئیے اور جھروکے کی چھت پر اس لئے لکھے کہ مٹ نہ جائیں اور بہت عرصے باقی رہیں‘ چنانچہ یہی ہوا کہ مٹے نہیں اور آپ ان کی تصویریں لے کر آئے ہیں‘ یہ شعر بہت دلچسپ ہیں‘ ان میں بے ثباتی دنیا کا احساس ملتا ہے‘ ان عبارتوں کی جو سب سے اہم خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں تاریخ دی ہوئی ہے‘ جس تاریخ کی یہ تحریر ہے اس سے پہلے قندھار میں ایک واقعہ ہوا تھا‘ قندھار کے قلعے پر شاہ جہاں نے اس زمانے میں دولت خاں نامی ایک امیر کو مقرر کر رکھا تھا جو بڑا وجیہہ تھا لیکن بہت بوڑھا ہوچکا تھا‘ وجاہت کی بنیاد پر تقرر کردیاگیا‘ چونکہ شاہ عباس ثانی اور جہانگیر میں بڑی دوستی تھی یہ گمان بھی نہیں تھا کہ حملہ ہوگا لیکن شاہ عباس ثانی شکار کھیلتے ہوئے قندھار پہنچ گئے اور پہنچتے ہی انہوں نے قلعہ بھی لے لیا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ جو مغل سپاہ تھی وہ پسپا ہو کے وہاں سے بھاگی‘ اسی میں یہ لوگ بھی آئے اور انہوں نے رہتاس میں پڑاؤ ڈالا‘ دیوار پر جو نام لکھے ہیں ان میں کچھ نام تاریخی ہیں‘ جیسے شیخ نعمت اللہ‘ شاہ جہاں نامے میں ان کا تذکرہ ہے کافی‘ ایک اور نام ہے میر شریف کا‘ یہ بارہ سو سوار کے آدمی تھے‘ لیکن جو شعر صاف لکھے ہیں اور پڑھے جاتے ہیں وہ کسی سرور بقلانی کے ہیں‘ ان کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ ان کا منصب کیا تھا‘ مگر ظاہر بات ہے کہ یہ بھی کچھ ہوں گے‘ اتنے بڑے قلعے میں ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ پرانے کتبے بہت کم ملتے ہیں‘ بس کہیں اس کی تعمیر کی تاریخیں اور اخراجات کا حال لکھا ہے اور ایک جگہ کہتے ہیں کہ کسی کتبے میں لکھا ہے کہ قلعے کی تعمیر کے وقت یہاں اتنے بہت سے مزدور اور سپاہی رہتے تھے کہ ان کے لئے روزانہ جو دال پکائی جاتی تھی اس کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دال میں جو ہر روز ہینگ ڈالی جاتی تھی اس کا وزن کئی من ہوتا تھا‘ مجھے یقین نہیں آیا مگر سوار الدین شیدا صاحب مُصر تھے کہ انہوں نے یہ تحریر اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے‘ سوار الدین صاحب کے بغیر رہتاس کی داستان مکمل نہیں ہوتی جو کوئی قلعے کو دیکھنے آتا ہے انہیں بھی ضرور دیکھتا ہے ان کی باتیں توجہ سے سنتا ہے‘ یوں سمجھئے کہ قلعے کی تاریخ کے وہ راوی اور باشندوں کے وہ نمائندے ہیں۔ایک اور مقام پر اپنی کتاب کتب خانہ میں رقم طراز ہیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی میں صرف سندھ کے موضوع پر پچپن ہزار کتابیں جمع ہیں اور ان میں زیادہ تر اب نایاب ہیں جام شورو میں سندھ یونیورسٹی سے وابستہ  اس ادارے میں بہت بڑے کتب خانے کے ساتھ ساتھ قدیم کتابوں کو محفوظ کرنے کے وہ تمام انتظامات بھی ہیں جو مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں پائے جاتے ہیں‘ وہاں فیومی گیشن چیمبرہیں جن کے اندر رکھی ہوئی پرانی کتابوں کے کیڑے مکوڑے ختم ہو جاتے ہیں سیلن نکل جاتی ہے اور پرانا کاغذ لگنے سے بچ جاتا ہے اسکے علاوہ وہاں کتاب کے ہر ورق پر جھلی جیسا کاغذ چڑھانے کا بندوبست  بھی ہے جسکے بعد پرانا کاغذ صدیوں کیلئے محفوظ جاتا ہے انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی میں کتابوں کے ایک ایک صفحے کی چھوٹی سی فلم بنانے کے جدید انتظامات بھی ہیں اور اس مائیکروفلمنگ کے علاوہ ہر صفحے کی فوٹو کاپی اتارنے کے آلات بھی لگے ہیں پرانی کتابوں کی ازسرنو جلد بندی ہوتی ہے اور قابل ذکر اور قابل دید کتابوں کو شوکیسوں میں سجا دیا جاتا ہے اور وہیں اس کتاب کے بارے میں تمام ضروری معلومات تحریر کردی جاتی ہیں چنانچہ وہاں سینکڑوں کتابیں ایسی ہیں کہ انہیں پڑھنا تو رہا ایک طرف‘ دیکھنا ہی نصیب ہو جائے تو خود کو خوش نصیب جانیئے‘ انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی کو ملا کر‘ صوبے میں اس نوعیت کے تین ادارے ہیں ان کے متعلق ڈاکٹر الانا نے بتایا”ان میں سب سے سینئر ادارہ سندھی ادبی بورڈ ہے اس کے بعد ہے انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی‘ اسکے بعد ہے خیرپور کی پبلک لائبریری‘ ان تینوں اداروں میں جہاں تک قلمی نسخوں کاتعلق ہے تو سندھی ادبی بورڈ اول ہے۔