پھولوں سے پتھروں تک



 مشہور براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی پشاور کے حوالے سے اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ پشاور کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ان مصوروں کی بات نہ ہو جائے جو ٹرکوں اور موٹر گاڑیوں پر اوپر سے نیچے تک بیل بوٹے‘ ملکوں کے جھنڈے‘ خیبر کے قلعے‘ جست بھرتے ہوئے شیر اور دریاؤں‘ آبشاروں اور چمن زاروں کی تصویریں بناتے ہیں اور جو د و آنکھیں بناکر ان کے نیچے لکھتے ہیں چشم بدور‘ شالانظر نہ لگے۔ بالآخر میں نے سوئیکارنوچوک کے پچھواڑے ایک بڑے موٹر گیراج کے احاطے میں حاجی محمد یوسف صاحب کو ڈھونڈ نکالا جہاں اب یہ گیراج ہے یہاں کبھی بہت بڑی تھیٹر کمپنی تھی وہ کمرے اب بھی موجود ہیں جن میں اداکار آکر رہتے تھے وہ کمرے بھی موجود ہیں جن میں کبھی لیلیٰ کبھی شیریں‘ کبھی ہیر اور کبھی سسی کے چہرے سرخی پاؤڈر سے رنگے جاتے تھے اب اس احاطے میں ٹرک رنگے جاتے ہیں وہ ٹرک جن کے ڈرائیوروں کے بارے میں مشہور ہے کہ پولیس سے ڈرتے ہیں لیکن موت سے نہیں ڈرتے‘ شاید انہیں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ پینٹر نے ٹرک کی پیشانی پر لکھ دیا ہے  یا اللہ خیر ہر دم خیر...پہ مغہ دی خہ...حاجی محمد یوسف صاحب تقریباً چالیس سال سے موٹر گاڑیوں کو رنگتے سنوارتے چلے آرہے ہیں پشاور کے ان پینٹروں کی شہرت دور دور تک ہے خدا جانے کہاں کہاں سے ننگ دھڑنگ گاڑیاں پشاور آتی ہیں اور دلہن بن کر لوٹتی ہیں حاجی صاحب سے میں نے پوچھا کہ یہ کام کیا یہیں پشاور میں ہوتا ہے؟ جواب ملا”ہاں جی‘ پشاور ہی میں زیادہ تر‘ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی تمام لاریاں اور موٹریں یہاں آکر پینٹ ہوتی ہیں اور وہ لوگ بیل بوٹے بہت پسند کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اس صنعت کو یا اس کاروبار کو وسعت ملی ہے“ حاجی محمد یوسف صاحب کا تعلق اس شہر سے ہے جس کے قصہ خوانی کو کون نہیں جانتا انہوں نے ایک موٹر گاڑی کے رنگے جانے کا بہت دلچسپ قصہ سنایا ”ایک جرمن جوڑا تھا میاں بیوی‘ تو وہ بہت اچھی سفید گاڑی لے کر آئے وہ پہلے ایران پہنچے جہاں انہوں نے کابل کی گاڑیاں دیکھیں جن کے اوپر بیل بوٹے بنے ہوئے تھے تو وہاں انہوں نے پوچھا کہ یہ بیل بوٹے آپ نے کہاں بنوائے ہیں تو ایران میں انہیں بتایا گیا کہ یہ گاڑیاں افغانستان کی ہیں اور یہ کام افغانستان والوں نے بنایا ہے پھر وہ افغانستان آئے وہاں بھی انہوں نے پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ کام پشاور میں ہوتا ہے تو پھر وہ پشاور آئے اور ادھر صدر میں کارخانہ ہے لالہ خیر محمد کا‘ اس سے رابطہ قائم کیا کہ کوئی ہماری گاڑی پر بیل بوٹے بنادے بہرحال ہمارے پینٹر وہاں پہنچے اور اتنی اچھی گاڑی کے اوپر انہوں نے کہیں پھول‘ کہیں مرغ‘ مور‘ تیتر اور آنکھیں بنائیں اور ان کے نیچے لکھا چشم بدور‘ وہ بہت خوش ہو رہے تھے کہ یہ ہم نے بہت کمال کی چیز بنوائی ہے؟ وہ خوشی خوشی اپنی سفید فوکس واگن واپسی جرمنی لے گئے خوب تماشا رہا ہوگا بعد میں اس کا‘ میں حاجی محمد یوسف صاحب کے ہاں بچوں سے ملنا چاہتا تھا اس تاریخی شہر کی پرانی اور پرپیچ گلیوں کے اندر مکانوں میں اب لوگ کیسے رہتے ہیں‘ مجھے یہ دیکھنے کا اشتیاق تھا چوک شادی پیر کا علاقہ ذرا بلندی پر تھا محلے اونچے ٹیلوں پر آباد تھے مگر ان بلندی اور ان ٹیلوں کے نیچے چٹانیں نہیں‘ پرانا شہر پشاور تہ بہ تہ دفن تھا البتہ میرے سامنے ہر طرف مغلوں اور درانیوں کے زمانے کی سرخ اینٹوں کی عمارتیں تھیں بھاری بھر کم چوبی دروازے تھے جن میں سینکڑوں میخیں گڑی تھیں اور سیروں وزنی زنجیریں پڑی تھیں یہ سارے جتن کچھ تو اسلئے تھے کہ باہر کا آدمی اندر نہ آجائے اور اس سے بھی زیادہ اسلئے تھے کہ اندر کا آدمی باہر نہ چلا جائے ہر دروازے کے اوپر محرابیں تھیں ہر محراب کے اوپر جھروکا تھا دستک نیچے دروازے پر دی جاتی تھی جواب اوپر جھروکے سے ملتا تھا‘ کون ہے؟ دو تین غلط دروازے کھٹکھٹانے کے بعد میں حاجی صاحب کا مکان تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا فیل بانوں کی اس پرانی بستی میں ان کا مکان نیا تھا ابھی پلاسٹر اور وارنش کا نیا پن ہوا میں رچا بسا تھا روشن کمرے‘ اچھے فرش‘ آرائشی چھتیں‘ بجلی کے پنکھے‘ گیس کے ہیٹر‘ ریڈیو‘ ٹیلی وژن اور ریفریجریٹر صاف کہہ رہے تھے کہ آج کے نئے شہر پرانے شہر کے اوپر نہیں بلکہ ان کے اندر آباد ہوا کرتے ہیں‘ میں پہنچا تو حاجی صاحب کا پورا کنبہ خیر مقدم کیلئے نکل آیا‘ پوری فضا گرمجوشی سے بھرگئی سب کی خوشی کا احساس اس بات سے ہوتا تھاکہ سب بیک وقت بول رہے تھے۔