سہانا سفر

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ پشاور کی تاریخ دلچسپ ہے اور یوں دلچسپ ہے کہ یہ آنے والوں کی اور جانے والوں کی تاریخ ہے۔صدیوں تک پشاور بنتا رہا اور بگڑتا رہا۔ ہماری جرنیلی سڑک پرکہتے ہیں کسی زمانے میں ایک عظیم الشان شالیمار باغ بھی تھا۔ ڈاکٹر دانی نے اس کے بارے میں بتایا۔ ’شاہ جہاں کے زمانے میں یہاں پرایک شالیمار باغ بنا تھا جس کو بعد میں کننگھم پارک کہا گیا اور اب جناح پارک کہتے ہیں۔ یا شاہی باغ کہتے ہیں۔ جسکے درمیان سے اب یہ جی ٹی روڈ گزرتا ہے۔یہ درحقیقت شالیمار باغ تھا جس کے حسن اورجس کی دلکشی کا ذکر1810میں وہاں سب سے پہلے پہنچنے والے ایک انگریز نے کیا تھا۔اس وقت پشار پرسکھوں کا نہیں بلکہ درانیوں کا قبضہ تھا۔ یہ شالیمار باغ تقریباً دو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ سکھوں نے جب 1823-24، میں قبضہ کیا تو شالیمار باغ کا خاتمہ کر دیا اور اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ آج بھی وہاں نہیں ہے۔پشاور کو اب دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ کبھی پھولوں کا شہر رہا ہوگا۔ اب یہ مٹیالا سا پتھریلا شہر ہے۔ قدیم عمارتیں گر رہی ہیں۔ سیمنٹ کی اونچی اونچی عمارتیں بلند ہو رہی ہیں اور کچھ روز کی بات ہے یہ شہر پہچانا بھی نہیں جائیگا۔ کچھ ایسی ہی بات اس روز ڈاکٹر دانی نے کہی“ آج پشاور بہت بدل گیا ہے پہلے پشاور شہر ایک قلعے کے اندر تھا۔قلعے کی فصیل تھی۔ یہ گھرا ہو ا شہر تھا۔ اب شہر پشاور کھلا ہوا شہر ہے۔ ساری دیواریں، سارے دروازے توڑ دئیے گئے ہیں۔ سارے جنگلات ختم ہو گئے ہیں بلکہ جنگلات کی جگہ اب وہ کالے پہاڑ نظر آتے ہیں“۔عجیب سڑک ہے یہ جرنیلی سڑک بھی۔ آپ اس پر چلیں اور شعور کی آنکھیں کھلی رکھیں تو جتنے اور جیسے مناظر اس راہ میں آتے ہیں، شاید ہی وہ کہیں آتے ہوں۔ آپ چلتے جاتے ہیں اور ایک نہایت آباد سرزمین کی معاشرت، معیشت اور تاریخ ہمراہ چلتی ہے، کہیں حیرت آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگتی ہے اور کہیں عبرت، منظر بدلتے جاتے ہیں مگر وہ لڑی نہیں بدلتی جس میں وہ سارے کے سارے پروئے ہوئے ہیں۔ میں پشاور سے چلا تو بالاحصار کے نیچے ایک پتھر لگا ہوا نظر آیا۔ اس پربڑے حرفوں میں شاہراہ پاکستان لکھا ہوا تھا اور کسی وزیر کا نام لکھا تھا جس نے کبھی وہ پتھر وہاں لگایا ہوگا۔وادی پشاور اب بھی بہت سرسبز نظر آرہی تھی۔ جن زمینوں کو آتے جاتے لشکروں نے بار بار رونداہوگا اب وہ ہری بھری تھیں۔ کبھی ریلوے لائن سڑ ک کے قریب آجاتی تھی، کبھی بجلی کے بڑے بڑے کھمبے اور موٹے موٹے تار ساتھ ساتھ دوڑنے لگتے تھے۔ بستیاں آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں۔ رمضان کا مہینہ تھا، ان کے چائے خانے بند پڑے تھے۔اس تمازت کے عالم میں کہیں سے اچانک دریائے کابل آگیا،یہ نوشہرہ کے قریب آجانے کی پہچان تھی۔یہ شہر شاید اکبر نے آباد کیا تھا۔کبھی یہاں دریا کے دائیں کنارے پر نوشہرہ خرد اور بائیں کنارے پر نوشہرہ کلاں، یہ دو گاؤں تھے۔ ایک سرائے بھی تھی جس میں جہانگیر ٹھہرتھا۔ ایک قلعہ بھی تھا مگر تمام سرائیں اور تمام قلعے گزرتے قافلوں کی گرد میں مل کر خود بھی گرد ہوجایا کرتے ہیں۔اب ہم دریا دریا چل رہے تھے۔ جہاں تک نگاہیں جاتی تھیں وہاں تک زمین تھی، اس کے آگے بھی زمین تھی او ر انہی زمینوں میں وہ چھوٹا سا گاؤں، لہور آج بھی آبا دتھا جس میں سنسکرت قواعد کا سب سے بڑا عالم پانینی پیدا ہوا تھا۔کچھ اور آگے ایک اور گاؤں ہنڈ تھا، اس مشینی دور میں یہ جاننے کی فرصت کسے ہے کہ ہی ہنڈ کبھی گندھارا کا پایہ تخت تھا۔یہیں آکر سکندر نے سندھ پار کیا اور چنگیز خان یہیں سے دریا کا پاٹ دیکھ کر واپس چلا گیا تھا۔یہی محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو شکست دی تھی۔ اسی کو مورخوں نے ہندوستان کا دروازہ کہا تھا اور اگر اسی کانام کبھی اوہند تھا تو کیا عجب کہ ہندوستان کا اپنا نام اسی شہر سے نکلاہو مگر اب یہ دریائے سندھ کے کنارے ایک گمنام سا گاؤں ہے جس کا ماضی تاریخ کی دھندلی چادر اوڑھ کر کبھی کا سوچکا ہے۔