امریکہ کی ٹو فرنٹ وار(پانچواں حصہ)

شی جن پنگ اور ولادیمر پیوٹن کی دوستی پرانی بھی ہے اور گہری بھی اور انکے مفادات بھی سانجھے ہیں۔دونوں ملکر ایک طاغوت کو گرانا چاہتے ہیں دونوں کا دعویٰ ہے کہ انکا تابناک اور قابل رشک ماضی اسی طاغوت نے ان سے چھینا ہے اور وہ اب بھی انکا تعاقب کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ان دونوں کو پیس ڈالے بہتر یہی ہے کہ وہ اسکے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں اور اس سے کہہ دیں کہ بہت ہو چکا اب ہم تمہیں فتحیاب نہیں ہونے دیں گے روس اور چین دونوں جانتے ہیں کہ وہ اپنی تمام تر جوہری طاقت کے باوجود الگ ہو کر امریکہ کو شکست نہیں دے سکتے انکی بقا متحد ہو کر مقابلہ کرنے میں ہے امریکہ بھی اس اتحاد کے مضمرات کو بخوبی سمجھتا ہے وہ اس اکٹھ سے پچاس سال پہلے بھی خوفزدہ تھا اسی لئے صدر نکسن نے 1972 میں بیجنگ جا کر چین سے سفارتی تعلقات استوار کئے تھے اسکے بعد امریکہ اورروس کی سرد جنگ میں چین نے دونوں میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دیا تھا چین اسوقت ایک طاقتور ملک تو نہ تھا مگر امریکہ جانتا تھا کہ وہ اسے ترقی دیکر ایک خوشحال ملک بنا سکتا تھا۔اسوقت امریکی دانشوروں کی سوچ کے مطابق چین کو سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنا کراسے مغرب کے حلقہ اثر میں شامل کرنا امریکہ کے مفاد میں تھا انکے خیال میں اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ چین اور روس کے درمیان فاصلے مزید بڑھ جائیں گے ان دنوں چین اور روس کے درمیان نظریاتی اختلافات عروج پر تھے اور سائبیریا کے سرحدی تنازعے پر بھی دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے اسلئے چین کو اپنے حلقہ اثر میں شامل کرنیکا یہ سنہری موقع امریکہ کھونا نہیں چاہتا تھا چین کو بھی ان دنوں امریکہ جیسے کسی ایسے دوست کی ضرورت تھی جو اسے شاہراہ ترقی پر گامزن ہونے میں مدد دے سکے نصف صدی پہلے کے ان واقعات کے بیان کی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں ممالک کی یہ مثلث بہت پرانی ہے تینوں جانتے ہیں کہ ان میں سے دو اکٹھے ہو کر ہی تیسرے کو شکست دے سکتے ہیں۔اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ1972 کے واقعات سے بالکل مختلف ہے مثلث وہی ہے مگر دوست دشمن اور دشمن دوست بن گئے ہیں کیا رچرڈ نکسن جانتا تھا کہ صرف پچاس سال بعدچین معاشی اور عسکری اعتبار سے اتنا مضبوط ہو جائیگا کہ امریکہ کے مقابلے پر آ کھڑا ہو گا اور پھر اس کے بعد چین اور روس اتنے شیرو شکر ہو جائیں گے کہ دونوں ملکر امریکہ کو للکاریں گے یہ بات دس سال پہلے بھی کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی کہ روس سائبیریا سے اپنی فوجیں ہٹا کر دو ہزار میل دور یوکرین کی سرحد پر لے جائیگا چین اب اگر چاہے تو ایک تاریخی سرحدی تنازعے کو آسانی سے حل کر سکتا ہے روسی افواج کا ایک بڑا حصہ سائبیریا سے جا چکا ہے یہ میدان اب خالی پڑا ہے مگر چین ایسا نہیں کریگا اسکی وجہ یہ ہے کہ اسمرتبہ اسکا مقابلہ امریکہ سے ہے روس سے نہیں۔ چین 1991 کا سوویت یونین نہیں بننا چاہتا اور روس1991 کے سوویت یونین کا بدلہ لینا چاہتا ہے روس تو امریکہ سے حساب برابر کرنے لئے میدان میں اتر چکا ہے اس نے یوکرین کو مشرق‘ شمال اور جنوب سے گھیرے میں لے لیا ہے پیر کے دن صدر پیوٹن نے یوکرین کے دو صوبوں Donetsk اور Luhansk کو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے تسلیم کر لیا اسکے فوراّّ بعد انہوں نے ان دونوں ریاستوں کو یوکرین کے مبینہ تشدد سے نجات دلانے کیلئے اپنی افواج بھی بھجوا دیں تمام مغربی ممالک نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی ہے امریکہ نے روس اور ان دونوں ریاستوں پر کچھ اقتصادی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔ ریپبلکن پارٹی نے ان پابندیوں کو نہایت خفیف قرار دیکر بائیڈن انتطامیہ کو کمزور ہونیکا طعنہ دیا ہے صدر بائیڈن یورپی اتحادیوں کے موڈ اور تحفظات کو دیکھتے ہوے روس کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایک بڑی جنگ چھیڑنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کر لے۔صدر بائیڈن روس کے محاذ کو گرم کر کے چین کو تائیوان پر حملہ کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتیصدر امریکہ کی سوچ کے برعکس بعض دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ روس اگر ایک بڑی جنگ میں امریکہ کو الجھا بھی لیتا ہے تو اس صورت میں بھی چین تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کریگا اسکی کئی وجوہات ہیں ان ماہرین کی رائے میں چین اور روس کی دوستی نظریاتی نوعیت کی نہیں ہے وہ اسے Marriage of convenience یعنی مصلحت کی شادی سمجھتے ہیں یہ سیاسی مفادات کا ایسا تعلق ہے جسکی ضرورت چین سے کہیں زیادہ روس کو ہے چین روس کو امریکہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونیکی شاباش تو ضرور دیگا مگر وہ یورپ میں جنگ کی حمایت نہیں کریگاکیونکہ یہ آگ روس اور یورپ کو جھلسانے کے علاوہ چین کے معاشی مستقبل کو بھی غیر یقینی کی دھند میں لپیٹ دے گی۔یہ جنگ چین کی اس پالیسی کے بھی خلاف ہے جسکے تحت وہ ہمیشہ سے تمام ممالک کی خود مختاری اور سالمیت کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اسکے علاوہ چین کے یورپی ممالک اور امریکہ سے معاشی روابط اتنے گہرے ہیں کہ وہ انہیں روس کی خاطر توڑنے پر مشکل ہی سے آمادہ ہو گا۔ چین روس دوستی کی پیچیدگیوں پرمزید گفتگو اگلے کالم میں ہو گی۔