حسین ترین منزل

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی پاکستان کے اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ اچانک خیرآباد آگیا سامنے دریائے سندھ شاہانہ انداز میں بہا چلا جا رہا تھا جس کے دوسرے کنارے پر عظیم الشان قلعہ اٹک تھا اکبر اعظم کا اٹک بنارس‘ چار صدیوں کا عینی شاہد کتنے ہی زمانوں کا چشم دید گواہ۔ بہت سوچتا ہوں کہ اندر سے یہ قلعہ کیسا ہوگا‘یہاں ہماری گاڑی نے نئے پل کے راستے دریا پار کیا انگریزوں کا بنایا ہوا لوہے کا پل سامنے نظر آتا رہا کبھی سارا ٹریفک اس مضبوط پل کے اوپر چلا کرتا تھا اور یوں محسوس ہوتاتھا کہ گاڑی لوہے کے جنگل سے گزر رہی ہے لوگ کہا کرتے تھے کہ انگریز چلتے وقت بتا گئے تھے کہ انکے تمام پلوں کی عمر پورے ایک سو برس ہوگی اسکے بعد نئے پل بنانا‘ جس روز میں اٹک پہنچا یہ پل ایک سو دو سال پرانا ہو چکا تھا موٹر گاڑیاں نئے پل پر چلتی ہیں ریل گاڑیاں اب بھی دعائیں دم کرکے اسی بوڑھے پل سے گزاری جاتی ہیں‘ کہتے ہیں کہ اٹک کا یہ نام اکبر بادشاہ نے رکھا تھا نام رکھنے کا اسے بڑا شوق تھا کسی جگہ کا خوبصورت منظر دیکھ کر اس کے منہ سے بے ساختہ واہ نکلی اس مقام کا نام واہ رکھ دیا گیا پھر چلتے چلتے اس کا قافلہ دریائے سندھ کے کنارے پہنچ کر اٹک گیا وہ جگہ اٹک کہلائی پھر قافلہ خیر سے پار اتر گیا وہ مقام خیرآباد کہلایا‘ اس کی ایک کہانی اور بھی ہے اکبر نے اپنے پیش رو شیر شاہ سے بہت کچھ سیکھا تھا‘ بہت سے کام جو اکبر نے کئے انکی بنیاد شیرشاہ رکھ گیا تھا شیرشاہ کی مملکت بہار سے پنجاب تک پھیل گئی تھی اسکے ایک سرے پر بہار میں قلعہ رہتاس تھا اسکے دوسرے سرے پر پنجاب کی گکھڑوں کی سرزمین پر شیرشاہ نے دوسرا قلعہ بنوایا تو اس کا نام بھی رہتاس رکھا بالکل اسی طرح اکبر کی مملکت کے ایک کنارے پر کٹک تھا دوسرے کنارے کا نام اس نے اٹک رکھا یہاں کشتیاں چلانے اور دریا پار کرانے کیلئے اکبر بنارس سے ملاح لایا اور اس خیال سے کہ وہ اب اسی جگہ کو وطن سمجھیں اس چھوٹے سے شہر کو اٹک بنارس کا نام دے دیا گیا ملاحوں کی گزربسر کیلئے جاگیر اور رہنے کیلئے شہر میں ایک محلہ دیا گیا جو ملاحی ٹولہ کہلاتا ہے اور جہاں پرانے ملاحوں کی آل اولاد اب تک آباد ہے اس کے پاس جہانگیر کے زمانے کی سرائے ہے بہت بڑا احاطہ ہے جس کے گرد مسافروں کیلئے سینکڑوں کمرے ہیں اسکے بعد کلکتے تک اتنی اچھی حالت میں کوئی سرائے  نظر نہیں آئی۔ خود قلعے کا قصہ یہ ہے کہ مغلوں سے اسے کابل والوں نے چھینا کابل والوں سے اسے سکھوں نے چھینا انگریزوں نے سکھوں سے چینا سکھوں نے دوبارہ انگریزوں سے چھینا انگریزوں نے دوبارہ سکھوں سے چھینا اس چھینا جھپٹی کے باوجود یہ قلعہ آج تک کھڑا ہے راستے میں حسن ابدال کا پڑاؤ تھا کبھی یہ شہر اتنا دلکش رہا ہوگا کہ مغل مورخ لکھتے ہیں کہ لاہور سے کابل جانے والی شاہراہ پر یہ حسین ترین منزل ہے مگر آج کے حسن ابدال میں جھرنوں کے شور اور چڑیوں کی چہکار سے زیادہ جو چیز گونجتی ہے وہ سڑک کی دونوں طرف ہوٹلوں کے لاؤڈ سپیکر  ہیں جن پر دن رات فلمی گانے بجا کرتے ہیں ہوٹلوں کے مالکوں کا خیال ہے کہ جس کے لاؤڈ سپیکر کی آواز زیادہ اونچی ہوگی اسکے ہاں گاہک بھی زیادہ آئینگے اس روز رمضان کی وجہ سے گانا بجانا بند تھا۔ اس میں شک نہیں کہ حسن ابدال رونق کی اور عبرت کی جاہے دونوں طرف انگریزوں کے زمانے کے اونچے اونچے درخت‘ دور تک سبزہ‘ نالیوں میں بہتا ہوا چشمے کا شفاف پانی‘ ادھر ادھر پرانی عمارتیں اور مسجدیں ایک طرف سکھوں کا مشہور گوردواراپنجہ صاحب‘ دوسری طرف بابا ولی قندھاری کی چلہ گاہ کشمیر کی طرف مڑ جانے والی سڑک پر کسی مغل بی بی کی قبر کوئی کہتا ہے کہ اکبر کی بیٹی لالہ رخ تھی وہ یہاں عالم شباب میں مرگئی تھی‘یہیں قلعہ اٹک کے معمار خواجہ شمس الدین خوانی کا مقبرہ ہے جو اس نے اپنی زندگی میں تعمیر کرایا تھا مگر وہ کہیں دور مرا اور یہاں دفن ہونا نصیب نہ ہوا اسکے برعکس اکبر کے چہیتے مصاحب اور محرم راز حکیم ہمام نے کہیں دور وفات پائی لیکن بادشاہ کے حکم پر اس کی میت حسن ابدال لے جاکر اسکے بھائی حکیم ابوالفتح گیلانی کے پہلو میں دفن کی گئی حسن ابدال کے قریب اس مغل باغ کے آثار اب بھی موجود ہیں جس کے تالاب سے جہانگیر نے مچھلیاں پکڑی تھیں اور ان کی ناک میں موتی پرورکر پھر پانی میں چھوڑ دیا تھا۔