حسن ابدال سے آگے

مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کئی عشرے قبل پاکستان کے اپنے سفر سے متعلق یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ حسن ابدال سے آگے بڑھیں تو واہ چھاؤنی ہے وہاں مغلوں کے دور کی بہت بڑی باولی ابھی تک اچھی حالت میں موجود ہے کسی زمانے میں لوگ ان کے مویشی اور ہاتھی گھوڑے باولی کی سینکڑوں سیڑھیاں اتر کر سیراب ہوا کرتے تھے اب لوگ یہ مشقت نہیں کرتے بلکہ پمپ کے ذریعہ پانی کھینچ لیتے ہیں واہ سے آگے سرائے کالا ہے جی ٹی روڈ پر یہ چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں کالے پتھر کی کونڈیاں فروخت ہوتی ہیں انکے باہر کے کناروں پر بیل بوٹے کھود ر ان میں رنگ بھردیا جاتا ہے اور پھر اوپر تلے چن کو ان ہانڈیوں کے مینار سے کھڑے کر دیئے جاتے ہیں یہی سرائے کالا کی پہچان ہے ظاہر ہے کہ کبھی اس جگہ مسافروں کیلئے سرائے رہی ہوگی جہانگیر نے بھی یہاں پڑاؤ ڈالا تھا اس وقت اس جگہ کا نام کالا پانی تھا ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شیرشاہ اور مغلوں کے زمانے میں جو ہزاروں سرائیں بنائی گئی تھیں بعد میں ان کے گروبستیاں آباد ہوتی گئیں خود سرائیں نہیں رہیں البتہ آبادیوں کے نام کے ساتھ لفظ سرائے جڑا رہ گیا مردم شماری کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان پاکستان میں کئی سو شہروں‘ قصبوں اور دیہات کے ناموں کے ساتھ لفظ  سرائے لگا ہوا ہے اگر نقشے پر ان تمام مقامات کو لکیروں سے ملایا جائے تو کیا قدیم سڑکوں کا نقشہ خودبخود نہیں ابھرے گا؟ جہاں یہ سرائے کالا ہے وہاں سے صرف چند کلومیٹر دورٹیکسلا کے کھنڈر ہیں وہی ٹیکسلا جو ہندوستان کے تاج میں ایسے نگینے کی طرح جڑا تھا جس سے پھوٹنے والی کرنیں ایک عالم کو منور کیا کرتی تھیں وہ شہر اب یہیں آنکھیں موندے سو رہا ہے سرائے کالا سے چار میل آگے مرگلہ کی پہاڑی دیوار بن کھڑی ہے پہاڑی میں ایک کٹاؤ ہے لیکن اس دن میں سوچنے لگا کہ اس پچیس تیس ہاتھ چوڑے پہاڑی شگاف کے راستے ہزاروں برسوں کے دوران ان گنت قبیلے‘ قافلے اور لاؤلشکر گزرے ہونگے چین‘ افغانستان‘ وسطی ایشیاء ایران اور ایشیائے کوچک سے چاہے ایک تنہا مسافر آیا ہو چاہے ایک لشکر جرار‘ وہ سب مرگلہ کے اس کٹاؤ پر چڑھے ہونگے اور اوپر پہنچ کر انہوں نے دوسری طرف کا نظارہ کیا ہوگا تو تاحد نگاہ ہندوستان ہی ہندوستان دکھائی دیا ہوگا مرگلہ کا یہ تاریخی کٹاؤ ابھی موجود ہے جسے دیکھنا ہو فوراً جاکر دیکھ لے کیونکہ پہاڑی پتھرکاٹ کاٹ کر فروخت کرنے والے بیوپاریوں کی جدید مشینیں اس پہاڑی پر اس طرح ٹوٹی پڑ رہی ہیں جیسے قند کی ڈلی پر بھوکی چیونٹیاں۔ بعد میں جب انگریزوں نے گرینڈ ٹرنک روڈ کی تعمیر شروع کی تو انجینئروں نے اس کٹاؤ سے ہٹ کر پہاڑی میں گہرا درہ کاٹ دیا اس سے آنا جانا آسان ہوگیا البتہ بلندی پر اس سڑک کے آثار ابھی موجود ہیں جو غالباً اکبر نے بنائی تھی تاکہ کابل پر حملے کیلئے یہاں بھاری توپیں آسانی سے چڑھائی جاسکیں اس درے کے اوپر پہاڑی کی چوٹی پر نکلسن کی لاٹ میلوں دور سے نظر آنے لگتی ہے‘ 1857ء میں جس برطانوی فوج نے دہلی کا محاصرہ توڑا اس میں نکلسن آگے آگے تھا لاٹ کے نیچے لگی ہوئی تختی پر لکھا ہے کہ اس چڑھائی میں وہ زخمی ہوا اور آٹھ دن بعد چل بسا۔