صحتمند لوگوں کا شہر

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی پاکستان کے سفر پر مبنی اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ سب کی طرح شہروں کے بھی اچھے برے دن آتے ہیں چناب کے پاروزیرآباد جنکشن پر کبھی ریل گاڑی رکا کرتی تھی تو چمکتی ہوئی قینچیاں اور بھانت بھانت کے چاقوٹھیلوں پر سجائے کتنے ہی پھیری والے ساتھ ساتھ چلانے لگتے تھے لوجی وزیرآباد کے چاقو‘ لوجی وزیر آباد کی قینچیاں‘ مگر اب وہ آوازیں وہ لوگ اور ان کا وہ سازوسامان سبھی کند ہوگئے ہیں خود ان کا شہر بھی‘ کہتے ہیں کہ وزیر آباد جہاں تھا وہیں ٹھہر گیا ہے اگر آپ کوئی ایسا شہر دیکھنا چاہیں جس کی ترقی رک گئی ہو تو وزیرآباد دیکھئے‘ اسکے اردگرد دریا اور نالے ہیں چنانچہ شہر کے پھیلنے کی گنجائش نہیں چاقو اور قینچیاں بنانے کی پرانی صنعت تھی اب چاقو چھری شہر شہر بننے لگے ہیں اور اسی مناسبت سے چلنے بھی لگے ہیں آزادی سے پہلے کشمیر کے جنگلوں سے عمارتی لکڑی چناب میں بہا کر وزیر آباد لائی جاتی تھی اور یہاں ٹمبر کی بہت بڑی منڈی تھی وہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا یہی وزیر آباد ہے جو کسی زمانے میں پنجاب کا بہترین شہر کہلاتا تھا وہ یہی شہر تو تھا جو رنجیت سنگھ نے اپنے فرنگی جرنیل ابوطویلہ کو سونپ دیا تھا ابوطویلہ اٹلی کا باشندہ تھا شہر بسانے اور گلی کوچے بنانے کا فن اٹلی والوں سے بڑھ کر کسی کو نہیں آتا چنانچہ اس نے سیدھی سڑکوں اور دائیں بائیں جانے والی خط مستقیم جیسی گلیوں‘ خوش نما چوراہوں اور گھنٹہ گھروں کے نقشے کھینچ کروزیر آباد کو ازسرنوآباد کیا اس شہر کی وضع قطع میں وہ سلیقہ اب تک نظر آتا ہے مگر کوئی کیا کرے کہ وزیر آباد کو زمانے کی نظر لگ گئی شاداب زمینوں میں دوڑتی ہوئی جرنیلی سڑک ایک اور بستی میں نکلتی ہے جس کا نام گکھڑ ہے اسکے درمیان سے گزرے تو ہر طرف دریوں کے کارخانے اور دکانیں نظر آئیں کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں جو کشمیری باشندے آکر یہاں آباد ہوئے تھے اور اب تک آباد ہیں وہ دریاں بنانے کا فن اپنے ساتھ لائے تھے‘ گکھڑ سے آگے چلیں تو گوجرانوالہ چھاؤنی آتی ہے آٹھ آٹھ دس دس فٹ اونچے سورج مکھی کے کھیت آتے ہیں دورویہ لگے ہوئے بڑے بڑے سفید لگے پتھر آتے ہیں جن پر محکمہ زراعت نے کسانوں کیلئے ہدایتیں لکھی ہیں کون سا بیج بوئیں‘ کون سی کھادڈالیں اور کس مخلوق کو تلف کریں‘ ان سب کے بعد گوجرانوالہ آتا ہے جب تک میں وہاں نہیں گیا تھا یہی سنا تھا کہ گوجرانوالہ پہلوانوں کا شہر ہے لیکن جاکر دیکھا تو پتہ چلا کہ صحت مند اور ہنر مند لوگوں کا شہر ہے جیتا جاگتا‘ ہشاش بشاش‘ چاق وچوبند شہر‘ اس راستے میں واحد شہر جہاں سڑکوں کے کنارے ٹھنڈا دودھ فروخت ہوتا ہے جگہ جگہ ٹنکیاں‘ مٹکے اور گھڑے آراستہ ہیں جن کی دودھ جیسی سفید رنگت ہے اور لوگ بڑے بڑے گلاس بھر بھر کر دودھ پی رہے ہیں بازار لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں کہیں سودا سلف تو لاجارہا ہے کہیں گنا جارہا ہے اور کہیں ناپاجارہا ہے ٹین کے ٹرک‘ لوہے کے برتن اور کریپ کے دوپٹے خریدے جارہے ہیں اور بزاز کچھ زیادہ ہی خندہ پیشانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔شہر کے جو نئے علاقے آباد ہو رہے ہیں ان میں ایسے اچھے اور آرام دہ مکان ہیں اور مکانوں میں زندگی کی ایسی آسائشیں موجود ہیں کہ دیکھا ہی کیجئے ہر گھر میں کار کھڑی ہے نوجوانوں کیلئے موٹر سائیکلیں ہیں واک مین ہیں‘ کامپکٹ کیمرے ہیں اور ورزش کی پرانی روایت کا اب یہ حال ہے کہ صاحب حیثیت لوگوں کے گھروں میں وہ بائیسکل آگئی ہے جو اپنی جگہ کھڑے کھڑے دوڑاکرتی ہے۔