عتیق
یوکرین پر حملے سے پہلے روس اکتیس برس تک امریکہ اور یورپ سے شکایت کرتا رہا کہ وہ مشرقی یورپ کے ممالک میں اسلحے کی ذخیرہ اندوزی بند کردیں مگر کسی نے بھی اسکی شکایت پر کان نہ دھرے سوویت یونین کی 1991میں تحلیل کے بعد روس ایک طویل عرصے تک ایک کمزورملک کی طرح اپنے زخم چاٹتا رہا لیکن اس دوران وہ خاموشی کیساتھ اپنی عسکری اور معاشی طاقت میں اضافہ کرتا رہا آج اسنے یوکرین پر حملہ کردیا ہے تو پوری مغربی دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے امریکی ذرائع ابلاغ کہہ رہے ہیں کہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس روسی فوج Kyiv میں قتل عام کرے گی کچھ عرصہ پہلے تک مغربی میڈیا اس فوج کا اکثر یہ کہہ کر مذاق اڑاتاتھا کہ 1979 میں افغانستان پر حملے کے وقت اسکے فوجیوں نے پھٹی ہوئی جرابیں پہنی ہوئی تھیں آج روس کی معیشت اور اسکی عسکری منصوبہ بندی پر ایک نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسنے افغانستان میں شکست سے بہت کچھ سیکھا ہے پیوٹن نے2002 میں بڑی سفاکی سے چیچنیا میں مسلمانوں کی بغاوت کو کچل دیا پھر 2008 میں جارجیا پر حملہ کیا تو چند ہی دنوں میں اس ہمسایہ ملک سے اپنی شرائط منوانے کے بعد فوج واپس بلوا لی اسکے بعد 2014 میں Crimea کو یوکرین سے چھین کر اپنا حصہ بنایا تو اسپر نیٹوممالک آج تک احتجاج کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکے کسی بھی ملک کی سا لمیت اور خودمختاری پر حملے کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن کسی بھی جنگ کو اسکے تاریخی تناظر سے الگ کر کے دیکھنا غلط نتائج مہیا کرتا ہے روس نے جارجیا پر حملہ اسلئے کیا تھا کہ ان دنوں نیٹو اتحاد مشرقی یورپ کے کئی ممالک کو اسلحے سے لیس کرنے کے علاوہ انہیں اپنا حصہ بھی بنا رہا تھا پھر روس 2015 میں شام کی جنگ میں کودا تو اسنے بہت جلدمیدان جنگ کا نقشہ بدل کے رکھ دیا ان دنوں بشار الاسد کی حکومت چند دنوں کی مہمان نظر آ رہی تھی مگر وہ آج بھی دمشق میں نہ صرف قدم جمائے ہوے ہے بلکہ اسنے امریکہ کے پراکسی جتھوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے اب یوکرین پر حملے کے بعد امریکی میڈیا کہہ رہا ہے Putin has never lost a war. Here is how he will win inUkraine نیوز ویک نے تازہ شمارے میں لکھا ہے Putin gives his armed forces clear, achievable military objectivesthat would alllow him to declare victory یعنی پیوٹن اپنی افواج کو ایسے واضح اور قابل حصول فوجی اہداف دیتا ہے جو اسکی فتح کو ممکن بنا دیتے ہیں دفاعی ماہرین کے مطابق پیوٹن یوکرین میں زیادہ عرصہ پڑاؤ نہیں ڈالے گا اسکا مقصد Kyiv میں ایک ماسکو نواز حکومت قائم کرنا‘ اسکے ساتھ کبھی بھی نیٹو میں شامل نہ ہونیکا معاہدہ کرنااور واپس چلے جانا ہے روس کے یوکرین پر حملے سے پہلے امریکی ایجنسیوں نے کہا تھا کہ روسی افواج اڑتالیس گھنٹوں میں کیف پر قبضہ کر سکتی ہیں لیکن ایسا نہ ہو سکا امریکہ نے یوکرینی افواج کے علاوہ عوام کو بھی اتنا اسلحہ اور تربیت دی ہوئی ہے کہ وہ ملکریہ جنگ لڑ سکتے ہیں لیکن یہ جنگ ہفتوں یا مہینوں تک جاری نہ رکھی جا سکے گی روس نے اپنی فوج کی پیشقدمی اسلئے روک دی تھی کہ کیف حکومت نے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا مگر یہ بات آگے نہ بڑھی تو ماسکو نے تین اطراف سے حملہ کرنیوالی افواج کو دوبارہ آگے بڑھنے کا حکم دے دیا دوسری بات یہ کہ یوکرین کی تین سرحدوں پر روس کی ایک لاکھ نوے ہزار فوج کھڑی ہے جبکہ کیف کی طرف صرف چالیس ہزار فوجی پیشقدمی کر رہے ہیں روس کو کیف پر قبضہ کرنے میں دس دن لگتے ہیں یا ایک مہینہ اسکی اہمیت اسلئے نہیں ہے کہ ولادیمیر پیوٹن مشرقی یورپ کے ممالک‘ نیٹو اتحاد اور پوری دنیا کو جو پیغام دینا چاہتے تھے وہ انہوں نے دے دیا ہے وہ پیغام یہ ہے کہ تم مجھے نظر انداز نہیں کرسکتے روس کے صدر نے سابقہ وارسا پیکٹ ممالک سے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہےThere will be possible repercussions of getting too cozy with the West یعنی مغرب کے ساتھ پینگیں بڑھانے کے سخت ممکنہ نتائج ہوں گے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ نے یورپی ممالک کی سیکیورٹی کیلئے جو نئی حکمت عملی وضح کی تھی وہ پیوٹن کو قبول نہ تھی ماسکو سے شائع ہونیوالے جریدے Russia in Global Affairs کے ایڈیٹر Fyodor Lukyanov نے لکھا ہے کہ پیوٹن 1991 کے بعد بننے والے یورپی دفاعی نظام کو روس کیلئے نہایت خطرناک سمجھتا ہے It ate at him. He believes Russia was treated by the West as a second class citizen after the Soviet Union fell. اب پیوٹن اس راستے کی حفاظت کے نئے اصول وضح کرنا چاہتا ہے جو ماسکو سے نیٹو تک جاتا ہے امریکہ اسکی مزاحمت کر رہا ہے مگر وہ اسمیں کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا فی الحال نیٹو اتحاد بڑھ چڑھ کر روس پر اقتصادی پابندیاں لگا رہا ہے ان پابندیوں کے بارے میں سویڈن میں روس کے سفیر Victor Tatarintsev نے ایک اخبار نویس سے کہا Excuse my language, but we don't give a shit to your sanctions. روس ان اقتصادی پابندیوں کی کیوں پرواہ نہیں کرتا اسکا ذکر اگلے کالم میں ملاحظہ فرمایئے۔