تربیلا ڈیم تک پہنچنا آسان نہیں‘اس پر سخت پہرہ ہے‘ آنے جانے والوں سے بہت باز پرس ہوتی ہے‘میں بھی ان سارے مرحلوں سے گزرا‘نام‘ ولدیت‘ قوم‘سکونت یہ سب درج کراکے اونچی نیچی پہاڑیوں میں بل کھاتی سڑکوں سے گزر کر میں اس جگہ پہنچا جہاں سامنے تربیلا ڈیم کھڑا تھا‘وہ منظر دیکھا تو جا سکتا ہے‘ بیان نہیں ہو سکتا۔
ڈیم کے اوپر سے گزر کر میں اس جگہ پہنچا‘ جہاں سامنے تربیلا ڈیم کے نظارے کا اہتمام کیا گیا ہے‘باغ لگے ہیں‘ پھول کھلے ہیں‘ چائے خانے میں پشتو گانوں کے ریکارڈ بج رہے ہیں اور باپ اپنے بچوں کو کاندھوں پر بٹھائے تربیلا ڈیم دکھانے لا رہے ہیں‘وہاں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں ممتاز حسن بھی تھے جو79ء سے 81ء تک تربیلا ڈیم کی تعمیر میں خود بھی شریک تھے‘میں نے ممتاز حسن سے پوچھا کہ جب یہ ڈیم پورا ہوا۔ اس کاسارا کام ختم ہوا اور جیسے مصور اپنی تصور مکمل کرنے کے بعد پیچھے ہٹ کر اسے دیکھتا ہے‘اس کے معماروں نے جب پیچھے ہٹ کر اسے دیکھا ہو گا اس وقت یہاں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کی کیاحالت تھی؟وہ کہنے لگے“ میں نے لوگوں کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا‘ وہ جشن کے دن تھے‘ مجھے یاد ہے جب ٹی وی کمپنی‘ ڈھلنگھم کمپنی اور ڈیکو کمپنی نے اپنا کام مکمل کیا اور وہ اپنی بڑی بڑی مشینوں کوگاڑیوں پر لاد کر واپس روانہ ہوئے تو راستے بھر میلہ لگا ہوا تھا‘ وہ مشینیں اتنی بڑی بڑی تھیں کہ اگر راہ میں سڑک کے اوپر بجلی کے تار آ جاتے تو مزدور ان تاروں کو بانسوں کے ذریعے اونچا کرتے تب مشینیں گزرتیں اور مشینوں کو گزارنے کے لئے یہ تار کاٹنے پڑتے اور جوں ہی مشینیں گزر جاتیں‘ تارو دوبارہ جوڑ دئیے جاتے۔
میں نے پوچھا جب ڈیم کی تعمیر کا کام اپنے عروج پر ہو گااس وقت رات دن کام ہوتا ہو گامشینوں کا شور مچتا ہو گا رات بھر اجالا ہوتا ہو گا۔ دن بھر پہاڑ کاٹے اور ڈھوئے جاتے ہوں گے۔ آپ کویاد ہے؟ممتاز حسن نے صرف ایک مثال دیکر پورے منظر کی تصویر کھینچ دی کہنے لگے…… لوگ بڑی محنت کرتے تھے‘ البتہ جمعے کی شام ہم لوگ نہادھو کر کپڑے بدل کر غازی جاتے تھے‘وہاں کھانا کھاتے تھے‘ دو سنیما تھے‘ان میں فلمیں دیکھتے تھے‘یقین کیجئے کہ بار باریہ ہوا کہ ہم خالی میدان دیکھتے ہوئے گئے اور واپس آئے تو دیکھا کہ اسی میدان میں ایک بڑا کارخانہ لگ گیا ہے۔ چند گھنٹوں میں ویرانوں کے حلیے بدل جایا کرتے تھے‘اتنی تیزی اور اتنا آٹومیٹک کام ہو رہا تھا‘ایسے ہی مناظر لوگوں کیلئے دلکشی کا باعث بنتے اور وہ ایک عجیب سی خوشی محسوس کرتے۔ (رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)