یادوں کاسفر 

رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں کئی عشرے قبل پاکستان کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ1907ء کے گزٹیئر میں لکھا ہے کہ راولپنڈی شمالی ہندوستان ا سب سے صاف ستھرا شہر تھا وہ شہر اب گررہا ہے کچھ یوں بھی کہ مرگلہ کے دامن میں ایک نیا شہر اٹھ رہا ہے میں اسلام آباد کو دیکھ کر حیران رہ گیا جہاں کبھی صرف برساتی نالے بہا کرتے تھے اور جس علاقے کے سکوت کو صرف سیدپور اور نور پور شاہاں جانے والے توڑا کرتے تھے اس کی چٹانوں کو توڑ کر لوگوں نے ایسی بستی تراشی ہے کہ نگاہ نہیں ٹھہر تی لوگوں کی طرح شہروں کے بھی کردار ہوا کرتے ہیں اسلام آباد کا عجیب کردار ہے جہاں چھوٹے چھوٹے مکانوں میں چھوٹے چھوٹے گریڈ والے آباد ہیں وہاں بڑی رونق ہے اورچہل پہل بھی ہے مگر جہاں کئی کئی ہزار گز کے پلاٹوں پر لاکھوں کی لاگت سے بنے ہوئے مکان کئی کئی لاکھ ماہانہ پراٹھے  ہوئے ہیں وہاں دل دہلا دینے والی ویرانی ہے اور اگر وہاں دروازوں پر باوردی دربان نہ کھڑے ہوں تو آدمی آدمی کی صورت دیکھنے کو ترس جائے‘ ادھر شہر راولپنڈی سے وہ پہلا سا اطمینان کبھی کا رخصت ہوا پورے شہر میں لوگ پرانی عمارتوں کو توڑ توڑ کر فلیٹ آفس مارکیٹیں اور دکانیں بنائے چلے جارہے ہیں تمام بڑی سڑکوں کے کنارے اب دکانیں ہی دکانیں ہیں اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ عالم میں نے پشاور سے کلکتے تک دیکھا‘کیا گوجرانوالہ‘ کیا آگرہ‘ کیا کانپور اور کیا بناس‘ اس ڈیڑھ ہزار میل کی پٹی میں اتنی مارکیٹیں اور اتنی دکانیں تعمیر ہو رہی ہیں کہ ان کی قطار کو شمار کرنا مشکل ہے راہ میں پڑنے والے دیہات میں بھی دکانوں پر دکانیں بن رہی ہیں ہر شخص کچھ نا کچھ بیچ رہا ے جو بیچ نہیں رہا ہے وہ کچھ نہ کچھ خرید رہا ہے رات ٹیلیویژن پر مہارانی ہیئرآئل کا اشتہار آتا ہے صبح سارا شہر مہارانی ہیئرآئل خریدنے نکل کھڑا ہوتا ہے رات ٹیلیویژن پر فولاد مارکہ پریشر ککر کی کرامات دکھائی جاتی ہیں پھر اگلی صبح طلوع ہونے والا دن اس اشتہار کی کرامات دیکھتا ہے نپولین نے انگریزوں کے بارے میں کہا تھا کہ دوکانداروں کی قوم ہے نپولین دنیا میں دوبارہ آجائے تو اپنے مقولے پر اسے نظرثانی کرنا پڑے گی پنڈی کا حال اب یوں ہے کہ پہلے جہاں پنساریوں کی عطاروں کی‘ کپڑے اور جوتے والوں‘ حقے اور تمباکو کی دکانیں ہوا کرتی تھیں وہاں اب کمپیوٹر کی ویڈیو کی اور الیکٹرانکس کے جدید آلات کی دکانیں مال اسباب سے بھری پڑی ہیں جہاں لوگ کھڑے کھڑے مالٹے اور گنے کا رس پیتے تھے اور روٹی کے ساتھ مرغ چھولے کھایا کرتے تھے وہاں اب وہ کھڑے کھڑے جدید مشینوں پر فوٹو کاپی نکلوا رہے ہیں ایک کیسٹ کے گانے پلک جھپکتے دوسرے کیسٹ میں اتروارہے ہیں جاپانی کیمروں سے نکلی ہوئی امریکی رنگین فلمیں اپنے سامنے دھلوا کر کمپیوٹرائزڈ مشینوں سے چمکدار تصویریں نکلوارہے ہیں مرغ چھولے اب ائرکنڈیشنڈ ریستورانوں کے اندر ملتے ہیں اور گنے کے ساتھ نہ صرف لیموں بلکہ پودینے کے پتے اور ادرک کے ٹکڑے بھی پس رہے ہیں ہاتھ ہاتھ بھرے لمبے گلاسوں میں لسی پیتے پیتے دنیا کہاں جا پہنچی میں میلہ لگا کرتا تھا اور اونچے اونچے درختوں پر جھولے ڈالے جاتے تھے‘ اور پھر رات رات بھرعنایت حسین بھٹی گایا کرتے تھے اور لوگ کیسے سج دھج کے آیا کرتے تھے جب گرمیوں میں لوگ بسوں میں بھربھرکرمری جایا کرتے اور راستے میں بسوں کے گرم پہیوں پر چشموں کا شفاف پانی ڈالا جاتا تھا تو پوری فضا میں بھاپ کے بادل اڑا کرتے تھے اور چائے لمحہ بھر میں ٹھنڈی ہو جایا کرتی تھی لوگ جی ٹی ایس کی بسوں میں بیٹھ کر ٹوپی رکھ‘ جاتے تھے اور جھاڑیوں میں آنکھ مچولی کھیلتے تھے اور جھیل میں کرائے کی کشتیاں چلایا کرتے تھے سردیوں میں صدر کی بیکریوں سے وہ ہنٹرز بیف خرید کر لایا کرتے تھے اور راجا بازار سے تازہ پتیساآتا تھا گھرگھر مکئی کی روٹی‘ چنے کا ساگ اور پالک گوشت پکتا تھا اور بوریاں بھربھر کر مالٹے چوسے جاتے تھے پھر سردیوں کی صبحوں میں موٹے موٹے کنسٹوپ اور دستانے  پہنے‘ مفلر لپیٹے اور منہ سے بھاپ کے بادل اڑاتے ہزاروں ملازمین سائیکلوں پر بیٹھ کر دفاتر جایا کرتے تھے اور خدا جانے وہ کون تانگے والا تھا جو راہ گیر کو خبردار کرنے کیلئے صدالگاتا جاتا تھا ہئی۔ ہئی!! وہ سب باتیں خواب ہوگئیں اب جاپان کی بنی ہوئیں ویگنیں چل رہی ہیں اور ان میں ٹھنسے ہوئے مسافر وینگوں کے مالک کو کوس رہے ہیں کہ پوچھا نہ گچھا جب جی چاہا کرایہ بڑھا دیا کنڈیکٹر اور ڈرائیور بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر بحث میں شریک ہیں وہ شور ہے کہ خدا کی پناہ سب بیک وقت چلا رہے ہیں۔