صدر پیوٹن جانتے ہیں کہ امریکہ اور یورپی ممالک سخت ترین اقتصادی پابندیاں لگا کر روس کی معیشت کو مفلوج کرنے کی کوشش کریں گے یوکرین پر حملے سے پہلے انکے سامنے دو راستے تھے ایک شاہراہ خوشحالی پر گامزن رہنے کا اور دوسرا سرحدوں پر بڑھتے ہوے خطرات کا مقابلہ کرنے کا انہوں نے سوچ سمجھ کر سکیورٹی کو معیشت پر ترجیح دی یہ فیصلہ چند مہینوں کی سوچ بچار کا نتیجہ نہ تھا وہ کئی سالوں سے ان خطوط پر سوچ رہے تھے سوویت یونین کا حصہ رہنے والی ہمسایہ ریاست جارجیا پر 2008 میں حملہ اور پھر پانچ دنوں میں اس سے اپنی شرائط منوا کر واپسی اختیار کرنا ایک ایسا واقعہ تھا جسکے تانے بانے جمعرات کے دن یوکرین پر ہونیوالے حملے سے ملتے ہیں ہو سکتا ہے کہ روس کو اسکا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کا خواب انہوں نے اسدن سے دیکھ رکھا ہو۔
جب 9 اگست 1999 کو پہلی مرتبہ وہ وزیر اعظم بنے تھے گذشتہ بائیس برسوں میں وہ دو مختلف ادوار میں اٹھارہ برس تک روسی فیڈریشن کے صدر اور چار برس تک وزیر اعظم رہے اس دوران انہوں نے معیشت کو مستحکم کر کے بیرونی قرضے ختم کئے اور فارن ایکسچینج ریزروز 631 بلین ڈالرز تک پہنچا دیئے اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے فوج کو بھی جدید ہتھیاروں سے لیس کر دیاوہ جانتے تھے کہ مشرقی یورپ کی طرف سے بڑھتے ہوے خطرات کا مقابلہ کرنے کے نتیجے میں انہیں تنہا کر دیا جائیگا مگر انکے تزویراتی حساب کتاب میں یہ حقائق بھی شامل تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں نیٹو اتحاد بکھرا ہوا تھا اور امریکہ داخلی طور پر دو متحارب دھڑوں میں منقسم تھا کورونا وائرس نے دنیا بھر میں ہیجان برپا کر رکھا تھا اور امریکہ اور چین الجھے ہوئے تھے انکے خیال میں اپنے خوابوں کی منزل کی طرف سفر کے آغاز کیلئے اس سے بہتر وقت نہ ہو سکتا تھا لہٰذاچوبیس فروری 2022 کو انہوں نے یوکرین پر حملہ کردیا۔اس جنگ کو شروع ہوے پانچ روز ہو چکے ہیں مگر ابھی تک روس کی فوج کسی بڑے شہر پر قبضہ نہیں کر سکی خلاف توقع یوکرائن کی سکیورٹی فورسز اور عوام متحد ہو کر روسی افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
امریکہ کے دیئے ہوے سٹنگر میزائل روسی فضائیہ کا راستہ روکے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ٹینک شکن میزائل ٹینکوں کو آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دے رہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ روسی افواج دارلحکومت Kyiv پر قبضہ کئے بغیر واپس چلی جائیں گی وہ دو چار ہفتوں میں یہ معرکہ سر کر لیں گی مگر اسکے بعد کیا ہو گا کیااقتصادی پابندیوں میں جکڑی ہوئی روس کی معیشت یوکرین کی 44.13 ملین آبادی کو روٹی اور روزگار مہیا کر سکے گی روس کی عسکری برتری کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ مہینے ڈیڑھ بعد کیف میں روس نواز حکومت قائم ہو چکی ہو گی امریکہ نے یوکرین میں روس کی قائم کردہ حکومت کو گرانے کیلئے پہلے ہی سے گوریلا جنگ لڑنے والوں کو بھرپور امداد دینے کا اعلان کر رکھا ہے اس صورت میں ایک تباہ حال ملک میں خانہ جنگی جاری رکھنے سے بہتر یہی ہو گا کہ یوکرین کے کھنڈرات کو نیٹو اتحاد کے حوالے کر کے صدر پیوٹن کی فوج واپس لوٹ جائے کیا ولادیمیر پیوٹن صرف یہی چاہتے تھے‘ شائد نہیں‘ انکے عزائم خطرناک نظر آتے ہیں۔یورپ میں حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا گذشتہ پچاس برسوں میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ان میں سے ہر ایک کا انجام حملہ آور کی توقعات کے برعکس نکلا ویتنام‘ افغانستان‘ عراق‘ شام‘ لیبیا اور یمن کسی بھی ملک میں حملہ آوروں کو فتح حاصل نہ ہوئی یہاں ایڈولف ہٹلر کے اس مقو لے کا بیان نا مناسب نہ ہوگاThe beginning of every war is like opening the door into a dark room. One never knows what is hidden in the darkness. یعنی ہر جنگ کا آغاز ایسا ہوتا ہے کہ جیسے کسی تاریک کمرے کا دروازہ کھولا جائے کسی کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ تاریکی میں کیا چھپا ہے پیر کے دن کچھ ایسے واقعات ہوئے جو یوکرین جنگ کی تاریکی چھپی ہوئی تباہی کا پتہ دے رہے ہیں پہلی بات یہ کہ بیلا روس کے صدر Alexander Lukashenko نے کہا ہے کہ ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں 65.2فیصدلوگوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کے حق میں ووٹ دیا ہے اب روس کسی بھی وقت اپنے ایٹمی ہتھیار یہاں لا سکتا ہے۔
جمعرات کے دن بیلا روس میں موجود روسی فوج نے یوکرین کے دارلخلافے کیف جو کہ 75 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے کی طرف بڑھنا شروع کیا تھا بیلا روس کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے مغرب میں پولینڈ‘ شمال مغرب میں لیتھوانیا‘ شمال میں لیٹویا‘ شمال مشرق میں روس اور جنوب میں یوکرین واقع ہیں یہ تمام ممالک بیسویں صدی میں سوویت یونین کا حصہ رہے ہیں بیلا روس میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی صدر پیوٹن کے خطرناک عزائم کا پتہ دیتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اتوار کے دن جرمنی کے چانسلر اولف شولز نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ جرمنی اپنی عشروں پرانی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرتے ہوے 100 بلین یوروز (113 billion dollars) اپنی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کرنے میں خرچ کرے گا حالات کے تناؤ میں مزید اضافہ کرتے ہوے صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ سابقہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مائیکل ملن کی سربراہی میں ایک ہائی لیول وفد تائیوان بھجوا رہے ہیں تا کہ اس ملک کی قیادت کو یقین دلایا جا سکے کہ امریکہ ہر حال میں انکے ساتھ کھڑا ہے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد تائیوان کی صدر Tsai Ing Wen کئی مرتبہ اس خدشے کا اظہار کر چکی ہیں کہ یہ چین کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ تائیوان پر حملہ کرکے اسے اپنا حصہ بنا لے۔صدر بائیڈن اس وفد کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امریکہ چین اور روس کے خلاف بہ یک وقت ٹو فرنٹ وار لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ چین تائیوان کے محاذ پر پیشقدمی کرتا ہے یا نہیں اسکا جائزہ اگلے کالم میں لیا جائیگا۔