ظروف سازی

مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ یہ شہر جس کا نام گجرات ہے کاریگروں اور فنکاروں سے ایک دن بھی خالی نہیں رہا کہتے ہیں کہ سب سے اچھی شمشیر یہاں کے لوگ بنایا کرتے تھے پھر انہیں سجاتے تھے اور ان کے دستوں اور پھل میں سونے چاندی کے تاراتار دیا کرتے تھے لوہے میں روپہلے سنہرے تار اتارنے کا یہ فن کوفت گری کہلاتا تھا سکھوں کے زمانے تک گجرات میں بہترین کوفت گری ہوتی تھی اسکے علاوہ گجرات کے بڑھئی ایسا اعلیٰ فرنیچر بناتے تھے کہ انگریزوں کے دور میں گجرات کی کرسیاں انگلستان تک جاتی تھیں وہ جو آرام کرسیاں کہلاتی ہیں وہ گجرات ہی میں بنتی تھیں اور پھر مٹی کے برتن نفاست ان پر ختم تھی پانی پینے کے ایسے کوزے تو خود میں نے دیکھے ہیں جو سرخ کاغذ جیسے ہوتے تھے اور ان میں سے دھوپ چھنتی تھی چاک گھومتے تھے تو گندھی مٹی انگوٹھے اور انگیوں کے بیچ حسن میں ڈھل جایا کرتی تھی وہ اسی گجرات کے گھڑے تو تھے جو اگر کچے نہ ہوں تو عشق کو چناب کے پاراتار دیا کرتے تھے۔
 شہر کے ایک  علاقے میں کمہاروں  کے محلے کے آثار اب تک باقی ہیں گجرات میں تجوریاں بھی بہت اچھی بنتی ہیں گجرات کا ایک اور ادارہ جسے دیکھ کر جی خوش ہوا وہ انسٹی ٹیوٹ آف سرامک ٹیکنالوجی ہے یہاں شہر کے ہونہار کاریگروں کو چینی کے برتن بنانے کی ترتیب دی جاتی ہے اس کے علاوہ برتن بنانے والوں کو سہولتیں دی جاتی ہیں مشورے دیئے جاتے ہیں خام مال دیا جاتا ہے اور وہ چاہیں تو اپنے بنائے ہوئے کچے  برتن یہاں لاکر جدید بھٹیوں میں پکوا سکتے ہیں صورت اب یہ ہے کہ پنکھا سازی کے بعد ظروف سازی گجرات کی سب سے بڑی صنعت ہے ہزاروں لوگ اس سے روزی کماتے ہیں چاک اور کوئلے کی بھٹیوں کا زمانہ دریا کی طرح بہت دور جاچکا ہے اب سارا کام جدید مشینوں پر ہو رہا ہے پہلے یہیں سے نکلنے والی لال مٹی کے برتن بنتے تھے اب میانوالی اور سوات سے سفید مٹی آتی ہے اور عمدہ چینی کے برتن بنتے ہیں اور اسی دوران گلگت میں بہت اچھی سفید مٹی کے بھاری ذخیرے مل گئے ہیں اس روز میری ملاقات انسٹی ٹیوٹ آف سرامک ٹیکنالوجی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر چوہدری غلام رسول صاحب سے ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ گجرات میں چینی کے برتن بنانے والے کیا وہی لوگ ہیں جنہیں یہ فن ورثے میں ملا ہے یا اس صنعت میں باہر کے نوجوان آرہے ہیں؟ انہوں نے کہا شروع شروع میں تو اس صنعت میں یہی رجحان تھا کہ یہ فن باپ سے بیٹے ہی کو ملتا رہا ہے لیکن اب کچھ دیر سے جب سے یہ باضابطہ صنعت بنا ہے اب باہر کے لوگ بھی اور لوگ  بھی کافی تعداد میں اس صنعت میں آگئے ہیں پہلے مثل مشہور تھی کہ چین میں دادا مٹی بنایا کرتا تھا اور پوتا برتن بنایا کرتا تھا لیکن اب جب یہ صنعتی دور شروع ہوا ہے تو اس میں باہر کے وہ لوگ بھی جو اس صنعت سے وابستہ نہیں تھے اب اس میں آکر کام کرنے  لگے ہیں کیونکہ مشینری کے دور میں اگرچہ آرٹ اپنی جگہ بدستور قائم ہے لیکن فن کے لحاظ سے بہت لوگ اس میں آگئے ہیں۔
 چوہدری غلام رسول صاحب سے مل کر میں انسٹی ٹیوٹ کا کارخانہ دیکھنے گیا لاکھوں برتن اوپر تلے جمے ہوئے تھے سانچوں سے ڈھل کر برتن پربرتن نکل رہے تھے بہت سارے نوجوان یہ کام سیکھ رہے تھے میری ملاقات ان کے ایک استاد محمد عبدالغفور صاحب سے ہوئی جو ڈیمانسٹریٹر ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ گجرات میں کیا اب بھی کہیں چاک گھمائے جاتے ہیں یا اب سارے برتن مشینوں سے بنتے ہیں؟ انہوں نے کہاکہ پہلے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ طریقہ کار نہیں تھا سارا کام ہاتھ سے ہوتا تھا اور یہ جو آج کل گلیزنگ ہو رہی ہے اور کلرگلیزنگ ہو رہی ہے اور مختلف قسم کے ڈیزائن بن رہے ہیں اور طرح طرح کی مشینری آنے لگی ہے یہ پہلے کہاں تھی؟ پہلے تو سارا کام ہاتھ سے ہوتا تھا اور گھروں میں چھوٹی چھوٹی بھٹیاں لگائی جاتی تھیں اور تمام کام موروثی کمہار کرتے تھے وہ سارا کام اب ختم ہو رہا ہے محمد عبدالغفور صاحب کے بعد میں کسی پرانے کاریگر سے ملنا چاہتا تھا ایسے کاریگر سے ملنا چاہتا تھاجس کے باپ دادا بھی مٹی کے برتن بناتے چلے آئے ہوں اتفاق سے وہیں میری ملاقات مولوی محمد یونس صاحب سے ہوئی وہ تقریباً45 سال سے برتن بنارہے ہیں محمد یونس کے بزرگ محمد حسین‘حاجی محمد عظیم‘ حاجی محمد رمضان یہ سب گجرات کے بے مثال کاری گر تھے کہنے لگے کہ میرے استاد آدھے گجرات کے استاد تھے ان کے شاگرد گوجرانوالہ تک پھیلے ہوئے ہیں جو وہاں سٹون ویئر کا کام کر رہے ہیں۔