لاہور والے زندہ دلان پنجاب کہلاتے ہیں میں نے لاہور کو دیکھا تو ویسا ہی زندہ دل پایا زندگی کو ایسا جی کھول کر کس نے برتا ہوگا‘ جب دوسری بستیوں کا یہ حال ہے کہ دیکھ کر دل ڈوبا جائے‘لاہور ایسا جیتا جاگتا نگر ہے جو لاکھ اجڑا پھر بھی آباد ہے شام ہوئی ہے تو لوگ گھروں سے باہر آگئے ہیں اور وہ بھی سرشاری کے عالم میں‘ لوگ کھا رہے ہیں‘پی رہے ہیں‘باغوں کو جارہے ہیں‘یہی لاہور والے تو ہیں کہ ادھر بارش کا پہلا چھینٹا پڑا اور یہ تانگوں میں لدپھند کر شالا ماریا جہانگیر کے مقبرے یا باغ جناح کی طرف چل پڑے‘ساتھ میں کھانوں سے بھرے برتن ہیں آموں سے بھری پیٹیاں ہیں لوگ گارہے ہیں کھیل رہے ہیں‘کھانے پر چھینا جھپٹی کررہے ہیں اور جھولے جھول رہے ہیں اور لطف یہ کہ پوری بارش کا انتظار بھی نہیں کیا ایک ذرا سا چھینٹا پڑا اور آدھا لاہور گھروں سے سے باہر نکل کھڑا ہوا‘ کھانے پینے کا تو یہ حال ہے کہ میں رکشہ پر بیٹھ کر کہیں جارہا تھا معلوم ہوا کہ آگے مجمع کی وجہ سے سڑک بند ہے‘ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کڑھاؤ سے گرم جلیبیاں نکل رہی ہیں یا کھولتے ہوئے سموسے اتر رہے ہیں اور سامنے کھڑا ہوا مجمع کھانے میں منہمک ہے۔
لاہور میں نہاری کی سو سے زیادہ دکانیں ہیں میرے ایک دوست مجھے اندر کہیں گلیوں کے ایک تنگ چائے خانے میں لے گئے وہاں بھی بڑا مجمع تھا معلوم ہوا کہ یہاں بہترین کشمیری چائے ملتی ہے باغوں میں جانے کی جیسی روایت لاہور میں ہے اور کہیں نہیں‘حسن اتفاق سے ادھر اس علاقے کو کچھ ایسے حکام مل گئے جنہوں نے شہر میں بڑے بڑے باغ لگادیئے ماڈل ٹاؤن کے درمیان جو بہت بڑی زمین خالی پڑی تھی اس میں دائرہ نما پارک بن گیا ہے ملک میں گھڑدوڑبند ہوگئی تو لاہور والوں نے لق ودق ریس کورس گراؤنڈ کو با غ بنادیا لارنس گارڈن تو پہلے سے تھا مگر اسے باغ جناح کا نام دینے کے بعد صحیح معنوں میں گل وگلزار بنادیا گیا‘ احمد ندیم قاسمی مجھے بڑے چاؤ سے ان باغوں کے بارے میں بتارہے تھے کہنے لگے کہ ایک شام میں ریس کو رس کے باغ کی طرف سے گزرا تو اندر کا راستہ نہیں ملا‘اتنا مجمع تھا کہنے لگے کہ گرمیوں میں لوگوں کا باغوں میں آنا تعجب کی بات نہیں لاہور میں لوگ شدید سردیوں میں بھی اوڑھ لپیٹ کرپارکوں میں آتے ہیں کیسا ہی موسم ہو‘وہ ضرور آئیں گے‘گھومیں گے‘ دیکھیں گے‘گپیں ماریں گے اور پھر چلے جائیں گے۔
میں نے اس تاریخی باغ کا ذکر کیا جو کبھی شہر لاہور کو حلقہ کئے ہوئے تھا مگر وقت نے اسے مٹا دیا قاسمی صاحب نے اس کا دلچسپ حال سنایا”وہ باغ میں نے دیکھا ہے بھاٹی دروازے سے لے کر آگے چلے جایئے لوہاری دروازہ‘ موچی دروازہ‘ دلی دروازہ‘ شیراں والا دروازہ اور ٹکسالی دروازہ‘ ان سب کو وہ باغ ملاتاتھا وہاں پنجابی کے شاعروں کی محفلیں لگتی تھیں پنجابی کے شاعر وہاں آکر اپنا کلام سناتے تھے ایک دنیا جمع ہوتی تھی اڈے بنے ہوتے تھے کہ یہ فلاں شاعر کا اڈہ ہے یہ فلاں شاعر کا اور یہ فلاں شاعر کا وہاں میں نے دیکھے ہیں بانسری بجانے والے‘ ایک بانسری بجانے والا بیٹھا ہے اور ایک مخلوق جمع ہے اور جھوم رہی ہے اور وہ جو بانسری بجا رہا ہے وہ پیسے کیلئے نہیں بس ماحول کو خوشگوار بنانے کیلئے‘ مگر وہ باغ اب نہیں رہا اس کا بہت سا حصہ ختم ہوگیا سوائے موچی دروازے کے اور کوئی باغ باقی نہیں رہا ان کی جگہ دکانیں بن گئی ہیں مارکیٹیں بن گئی ہیں اور شہر پھیلتا چلا جارہا ہے اور یہ کہ جتنا پھیلاؤ اس کا ہورہا ہے وہ ماڈرن ہو رہا ہے تو میں نے ایک بار ایک شعر میں کہا تھا۔
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اسکے ساتھ... سرحدی ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی... وہ سرحدیں ٹوٹ رہی ہیں گلستانوں کی ہوں یا ہماری روایات کی ہوں‘ وہ ٹوٹ رہی ہیں کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ انہیں اتنا بچا لیا جائے اور اتنا باقی رکھ لیا جائے کہ نئی نسل انہیں دیکھ لے اور ان سے متعارف ہو جائے‘ اس روز میں لاہور کا انارکلی بازار دیکھنے اور اس سے متعارف ہونے گیا غضب کا شور مچا ہوا تھا لوڈشیڈنگ کی وجہ سے علاقہ کی بجلی بند تھی اور ہر دکاندار اپنی بجلی آپ پیدا کر رہا تھا دکان کے باہر اس نے گوجرانوالہ‘ گجرات اور سیالکوٹ کے بنے ہوئے جنریٹر چلا رکھے تھے جن کے شور سے یہ حال تھاکہ دکان دار تیس روپے بتاتا تھا گاہک بیس روپے سنتا تھا جہاں زیادہ جنریٹر چل رہے تھے وہاں تو دکاندار کے بتائے ہوئے ساٹھ روپے مجھے سات روپے سنائی دیئے‘ رہی سہی کسر کیسٹ کے دکانداروں نے پوری کردی ان کی بڑی بڑی دکانیں ہیں جن میں ماہیا سے لیکر غزلوں تک ہزار طرح کے کیسٹ چنے ہوئے ہیں۔ اصولاً تو گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلئے انہیں لاؤڈ سپیکروں پر اونچی آواز کھول کر گانے بجانا چاہئیں لیکن ادھر شاید شوق خطابت کا زور ہے اور ان دکانوں کے مالکوں نے ٹیپ پر اپنی تقریریں ریکارڈ کرکے چلا رکھی ہے۔
(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)