رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں لاہور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاہور کی کہانی یہاں کے علم و فضل کی بات کہے بغیر پوری نہیں ہوتی اور ایک پورے دور کی اس کہانی کے جیسے راوی عاشق حسین بٹالوی ہیں بوڑھا راوی بھی نہیں ہو سکتا شہر کی سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی زندگی کا عاشق حسین صاحب نے بہت قریب سے جائزہ لیا ہے اور خصوصاً لاہور کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب علم و فضل اور ادب وثقافت کے آسمان پر لاہور ستارا بن کر جگمگا رہا تھا ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی بھی اب بہت بزرگ ہیں مگر اپنا زمانہ انکے ذہن پر یوں نقش ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو اس روز وہ لاہور کے یادگار دنوں کی داستان کہہ رہے تھے لاہور کے میں نے مختلف دور دیکھے ہیں لیکن علم اور ادب کی ترقی اور فروغ کے اعتبار سے سب سے زرخیز اور بھرپور دور جو میں نے لاہور میں دیکھا ہے وہ دوسری عالمگیر جنگ سے کوئی سات آٹھ سال پہلے کا دور ہے پھر وہ دور نہیں آیا دوبارہ‘ لاہور کے اورینٹل کالج میں ڈاکٹرشیخ محمد اقبال‘ پروفیسر شیخ محمد شفیع‘ حافظ محمود شیرانی‘ گورنمنٹ کالج میں پطرس بخاری اور پھر اقبال خود اور اسکے علاوہ مولانا ظفر علی خاں‘ مولانا تاجور نجیب آبادی جو تھے تو نجیب آباد کے لیکن انکی ساری عمر لاہور میں گزری دیال سنگھ کالج میں پڑھاتے تھے وہ تو انہوں نے لاہور میں ایک اردو مرکز قائم کیا اور اردو مرکز میں کام کرنے کیلئے انہوں نے یاس عظیم آبادی‘ جگر مراد آبادی اور اصغر گونڈوی جیسے شاعروں کو بلایا اتفاق سے اسی زمانے میں سیماب اکبر آبادی اور ساغر نظامی بھی لاہور آگئے تو لاہور کا یہ حال ہوا جیسے بارات میں شہنائیاں بجنے لگی ہوں لاہور میں ہر طرف شعروشاعری کے چرچے شروع ہوگئے پھر سرعبدالقادر مرحوم موجود تھے اور وہ تو بجائے خود ایک ادارہ تھے۔
تو وہ دور ہم نے دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے‘ لوگ بڑھ بڑھ کر شاعروں کو داد دیتے تھے آپس میں معاصرانہ چشمک بھی ہوتی تھی لیکن گالی گلوچ تک نوبت نہیں آئی اور مولانا ظفر علی خاں کو تو آپ جانتے ہیں وہ بلاانگیز آدمی تھے۔ تو چلے تو ساتھ تیرے فتنہ محشر چلے‘ وہ فتنہ محشر تھے پچیس سال تک مولانا ظفر علی خاں نے موچی دروازے کے باغ میں کھڑے ہو کر اپنی خطابت کے جوہر دکھائے‘ ایک مرتبہ سید سلیمان ندوی لاہور تشریف لائے تو انہوں نے یہ رنگ دیکھا علامہ اقبال نے ان کی دعوت کی اپنے مکان پر‘ اس میں بہت سے لوگ تھے میں بھی تھا اس میں تو سید صاحب نے فرمایا کہ میں نے اعظم گڑھ بھی دیکھا ہے میں نے علی گڑھ بھی دیکھا ہے میں نے دلی بھی دیکھی ہے لیکن یہ علمی فضا جو آج لاہور میں طاری ہوئی ہے یہ میں نے کہیں نہیں دیکھی تو اقبال نے کہا ہاں! حفیظ جالندھری کے نغمے ہوتے تھے پھر مشاعرے ہوتے تھے ہر کالج میں اپنی اپنی ایک علمی انجمن تھی اس میں مقالے پڑھتے تھے نوجوانوں نے حلقہ ارباب ذوق اور حلقہ ارباب علم کے نام سے دوادارے قائم کر رکھے تھے اور ہفتہ وار مجلس ہوتی تھی زلزلہ آئے طوفان آئے سیلاب آئے لیکن حلقہ ارباب ذوق کی مجلس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تھا تو میں نے عرض کیانا‘ کہ وہ دور لاہور کا پھر ہم نے نہیں دیکھا۔