قصہ ایک محل کا

رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں پاکستان کے شہر گجرانوالہ کے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محمد عبدالغفور صاحب کے بعد میں کسی پراے کاریگر سے ملنا چاہتا تھا ایسے کاریگر سے جس کے باپ دادا بھی مٹی کے برتن بناتے چلے آئے ہوں اتفاق سے وہیں میری ملاقات مولوی محمد یونس صاحب سے ہوئی وہ تقریباً45 سال سے برتن بنارہے ہیں محمد یونس کے بزرگ محمد حسین‘ حاجی محمد عظیم‘ حاجی محمد رمضان یہ سب گجرات کے بے مثال کاریگر تھے کہنے لگے کہ میرے استاد آدھے گجرا ت کے استاد تھے انکے شاگرد گوجرانوالہ تک پھیلے ہوئے ہیں جو وہاں سٹون ویئر کا کام کر رہے ہیں میں نے محمد یونس صاحب سے پوچھا کہ آپ کے خاندان کی عمریں برتن بناتے گزریں یہ بتایئے کیا آپ کے بچے بھی اس کام کو آگے بڑھائیں گے؟ جواب ملا نہیں‘ ویسے میرا ارادہ تو نہیں ہے کہ وہ اس لائن میں آئیں ان کو تعلیم دلواؤں گا اور انکو اور کوئی اچھا سا کام کراؤنگا جو بھی ان کی قسمت میں ہو یہ تو مقدر کی بات ہے تعلیم حاصل کرنا بھی کوئی ایسے بس کی بات نہیں ویسے میرا ارادہ ہے کہ  ان کو تعلیم دلوا کر کوئی اچھا سا بزنس کرادوں یا وہ کوئی کاروبار کرلیں‘ مطلب یہ کہ مولوی محمد یونس صاحب کے بعد اس گھر سے ظروف سازی کی روایت ختم ہو جائے گی۔
منصوبوں اور عزائم کا سارا مظاہرہ اب مکان بنانے میں ہو رہا ہے گجرات میں‘ خاص طور پر شہر سے ذرا باہر اب بڑے خوش نما مکان بن رہے ہیں ان میں ماہروں کی رائے سے لیکر پیسے کی فراوانی تک بہت کچھ صاف جھلکتا ہے یہ تو خیر نئے زمانے کی باتیں ہیں گجرات کا وہ مکان جو آنکھوں کے راستے دل میں اتر جائے وہ رام پیاری کا محل ہے رام پیاری کون تھی؟ اس کی تفصیل جاننے کا وقت نہ تھا وہ کیسی تھی؟ یہ پوچھنے کیلئے رمضان کا مہینہ مناسب نہ تھا بس اتنا سنا کہ بہت خوبصورت تھی علاقے کے ایک رئیس سے اسکی شادی ہوئی تو جیسی رام پیاری تھی اس کیلئے اس نے ویسا محل بنوادیا اسی کی خاطر شہر میں پہلے پہل موٹر گاڑی آئی اس میں بیٹھ کر شام کو جب رام پیاری دریا میں ڈوبتے ہوئے سورج کا حسن دیکھنے جاتی تھی اس وقت شہر چڑھتے ہوئے چاند کا حسن دیکھنے جمع ہو جایا کرتا تھا پھر جب برصغیر تقسیم ہوا اور ادھر کی آبادی ادھر ہوئی تو رام پیاری گجرات میں اپنا محل جوں. کا توں چھوڑ کر ہندوستان چلی گئی فرانسیسی کھڑکیوں‘ ہسپانوی دریچوں‘ اطالوی ٹائلوں سے مزیں فرش اور دیواروں‘ تراشیدہ بیل بوٹوں سے آراستہ چھتوں اورو کٹورین طرز کے کشادہ چوبی زینوں کے اس محل میں اب دو سو لڑکیاں رہتی ہیں اس عمارت میں اب طالبات کا ہاسٹل ہے اور ان کا کالج سڑک یار قریب قریب اتنی ہی شاندار رائے بہادر لالہ کدارناتھ کی کوٹھی میں قائم ہے جن دنوں میں رام پیاری کے محل میں پہنچا چھٹیاں تھیں اور طالبات اپنے گھروں کو جاچکی تھیں۔