مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ میں اس وقت جرنیلی سڑک سے پندرہ بیس میل اندر ایک نسبتا بڑے گاؤں سیدنگر میں بیٹھا ہوں‘ میں گوجرانوالہ سے ایک پرائیویٹ بس میں بیٹھ کر یہاں پہنچا ہوں بلکہ پہلے علی پورچٹھہ پہنچا اور وہاں سے تانگے پر بیٹھ کر سیدنگرآیا ہوں اجنبی دیکھ کر تانگے والے نے دوگنے پیسے لے لئے ہیں یہ علاقہ پاکستان کا بہترین چاول پیدا کرتا ہے قریب کہیں دریائے چناب ہے راستے میں جابجا نہریں ہیں جن میں تازہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی جھاگ اڑارہا ہے دھان کے کھیتوں میں پانی بھرا ہے اور ہر طرف کسانوں کے ٹریکٹر‘ ٹریلر اور ٹرک نظر آرہے ہیں سیدنگر میں اسلئے آیا ہوں کہ کوئی گاؤں دیکھنا چاہتا تھا گاؤں کی زندگی دیکھنا چاہتا تھا اور یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آج کا گاؤں میرے تصور سے کتنا مختلف ہے سیدنگر بڑی گاؤں میں بجلی ہے‘ گھروں میں ٹیلیویژن ہیں زیادہ تر پرانے لیکن پختہ مکان ہیں میرے میزبان نے اپنے ایک عزیز کے گھر میرے ٹھہرنے کا انتظام کیا ہے جو شایدخلیج کے کسی ملک یا سعودی عرب میں کام کرتے ہیں نہایت اچھا جدید طرز کا مکان ہے پمپ کے ذریعہ پانی اوپر چڑھتا ہے اور حمام میں شادرہے‘ واش بیسن ہے‘ فلش ہے اور ٹونٹوں میں تیز پانی آتا ہے دالان میں چنگ ڈال کر بچھونے کردیئے گئے ہیں تاکہ سفید تکیے اور چادریں خوب ٹھنڈی ہو جائیں فضا میں کثافت نہیں لہٰذا آسمان ستاروں سے بھرا پڑا ہے ایک اور مقام پر رضا علی عابدی پنجاب کے ایک اور علاقے کی سیاحت کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کی تپتی دھوپ میں ہماری بس کھاریاں پہنچی‘ کھاریاں کا یہ سارا خطہ بنجر پڑا تھا اور میں بس کی کھڑکی سے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر سایہ ڈھونڈ رہا تھا‘ اس سائے کا معاملہ عجیب ہے‘ آس پاس کہیں موجود نہ ہو تو آنکھیں اسے تلاش کرتی ہیں‘ موجود ہو تو چاہے اسکے تلے جانے کی ضرورت نہ پڑے تب بھی یہ اطمینان رہتا ہے کہ سایہ موجود ہے‘ اس روز دہکتی ہوئی سوکھی زمینوں کا سفر طے کرنے کے بعد جب گھنے درخت آئے تو تشفی سی ہوگی‘ میرے ایک ہم سفر نے کہا کہ درخت آگئے‘ اب گجرات قریب ہے‘ گجرات میں اکبر کی تین نشانیاں مجھے زبانی یاد تھیں۔حصار، یعنی قلعہ تو دور سے نظر آنے لگا‘ نیچے سے ٹیلے کی چوٹی تک بہت اونچی فصیلیں اٹھائی گئی ہیں اور ان پر پتھر اتنی صفائی اور مضبوطی سے چنے گئے ہیں کہ اب تک ایسے صحیح سالم رکھے ہیں، معلوم ہوتا ہے مزدور ابھی ابھی اجرت لے کر اور سلام کرکے گئے ہیں۔قلعے تک جانے کیلئے مسلسل چڑھائی ہے‘ اس چڑھائی کی دونوں جانب دکانیں اور مکان ہیں‘ اتفاق سے باؤلی اور کہنہ حمام اس راستے میں مل گئے‘ باؤلی یعنی کنواں کبھی یوں رہا ہوگا کہ لوگ اس تک آسانی سے پہنچ سکیں مگر اب وہ مکانوں کے دالان میں آگیا ہے‘ ہم صاف ستھرے، بلندی پر بنے ہوئے ہوادار کمروں کی دہلیزوں سے گزر کر کنویں تک پہنچے۔آپ نے کبھی سوچاہے کہ آپ اگر کوئی کنواں دیکھنے جائیں تو اس کے اندرجھانکتے ضرور ہیں‘ جرنیلی سڑک کے اس سفر میں ہم نے ایسے ایسے بہت سے کنویں جھانکے‘ اس گجرات کے کنویں پر ایک بہت پرانی عبارت دکھائی دی‘ کسی خوش خط پینٹر نے اردو اور گور مکھی میں لکھا تھا‘براہ کرم کنویں کے اندر کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں۔ہم نے جلدی سے جھانک کر دیکھا‘ اندر کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔اس باؤلی سے ملا ہوا‘اوپر چڑھتی ہوئی بازار نما سڑک کے کنارے اکبر کا بنوایا ہوا حمام بھی تھا‘ یہاں غسل خانوں کے فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی تھی اور لوگ بھاپ میں غسل کرتے تھے‘ ترکی کا یہ رواج ہندوستان میں قائم نہ رہ سکا لیکن گجرات کے اس حمام میں آج بھی فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے اور لوگ اپنے ہی پسینے اور بھاپ میں نہاتے ہیں‘ یہ حمام آج تک اسی طرح چلایا جا رہا ہے جیسے مغلوں کے دور میں چلتا ہوگا مگر اب اس میں جوڑوں ا ور پٹھوں کے درد اور ایسی ہی دوسری تکلیفوں کے مریض نہاتے ہیں۔ (رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)