کم عمری کی شادیاں، کیا حکومت قانونی ترمیم کے لئے سنجیدہ نہیں؟

کم عمری کی شادیاں، کیا حکومت قانونی ترمیم کے لئے سنجیدہ نہیں؟

پشاور(ناصر حسین) 

خیبر پختونخوا میں 1929ءکا انگریز دور فرسودہ قانون نافذ ہونے کے سبب صوبہ میں کم عمری کی شادیوںکو مﺅثر طورپر روکنا ممکن نہیں،93سال گزرنے کے باوجود صوبائی حکومت نوآبادیاتی دور کے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کے تحت شادی کے مقصد کے لیے لڑکی کی عمر 16 سال ہے۔ نو آبادیاتی قانون کے تحت کم عمر لڑکی سے شادی کی صورت میں دولہا اور اس کے والدین یا سرپرست کو زیادہ سے زیادہ ایک ایک ماہ قید اور زیادہ سے زیادہ ایک ایک ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ 
چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے) 1929، جو خیبر پختونخوا پر لاگو ہوتا ہے، ایک بچے کو ایک شخص کے طور پر بیان کرتا ہے، اگر مرد ہو، اس کی عمر 18 سال سے کم ہو، اور اگر لڑکی ہو، اس کی عمر 16 سال سے کم ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم پی اے نگہت اورکزئی نے چند ماہ قبل پرائیویٹ ممبر بل خیبر پختونخوا چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل، 2021 ءاسمبلی سیکرٹریٹ میں داخل کیا تھا تاہم صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا، بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ”شادی کے مقصد سے بچے کا مطلب وہ مرد یا عورت ہوگا، جس کی عمر 18 سال ہو۔ خلاف ورزی پر دولہا یا دلہن کو 3 سال قید اور ان کے والدین یا سرپرست کو دوسال قید، بھاری جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں بل میں یہ بھی تجویز کیا کہ عدالتوں کو کم عمری کی شادی کے مقدمات کا فیصلہ 90دن میں کرنے کا پابند کیا جائے“ 
پیپلزپارٹی کی رکن خیبر پختونخوا اسمبلی نگہت اورکزئی نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں نے کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لئے ترمیمی بل منظور کرالئے ہیں لیکن خیبر پختونخوا حکومت نے کریڈٹ کے چکر میں میرا بل مسترد کردیا، انہوں نے صوبائی حکومت کو پیشکش کی کہ وہ کم عمر پر لڑکیوں پر ظلم روکنے کے لئے بل اپنی طرف سے پیش کرے اپوزیشن اس کا ساتھ دے گی ۔ صوبائی محکمہ قانون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ریکارڈ قانون سازی کی اور کم عمری کی شادیاں روکنے کے لئے بھی اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی مشاورت سے موجودہ قوانین میں بہتری لائیں گے۔ 
2008 سے 2013 تک صوبے پر حکمرانی کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی پی کی مخلوط حکومت بھی اس معاملے پر قانون سازی کرنے میں ناکام رہی ۔جنوری 2013 میں بھی اے این پی کی ایک ایم پی اے منور سلطانہ نے سزائیں بڑھانے کے لئے ترمیمی بل پیش کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم پارٹی اراکین اور دیگر ایم پی اےزنے اسے "این جی او پر مبنی" ایجندا قرار دیا۔ صوبے میں 2013 سے 2018 برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی اس معاملے پر خاموش رہی۔ 
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونسیف کی اکتوبر2021ء کی رپورٹ کے مطابق اکیس فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے 
جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔دنیا کی پچانوے فیصد کم عمر ماو¿ں کا تعلق غریب ممالک سے ہے اور پاکستان کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ یونسیسف کی مارچ 2021ءرپورٹ کے مطابق پاکستان میں 16 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 7.3 ملین (% 6.0 ) اور 18 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 15.5 ملین (% 12.6 ) ہے
سندھ پہلا صوبہ تھا جس نے نوآبادیاتی سی ایم آر اے کی جگہ جون 2014 میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، 2014 نافذ کیا۔ اس قانون کے ذریعے عورت کی ممنوعہ عمر کو موجودہ 16 سے بڑھا کر 18 سال کر دیا گیا۔مذکورہ قانون میں کم عمری کی شادی کرنے کی سزا کو بڑھا کر جرمانے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ اس قانون نے جرم، قابلِ سماعت، ناقابلِ تعمیل اور ناقابل ضمانت بنا دیا ہے۔
پنجاب حکومت نے مارچ 2015 میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ، 2015 نافذ کیا، لیکن CMRA 1929 کو منسوخ کرنے کے بجائے اس قانون میں کئی ترامیم کیں۔ تاہم شادی کے لیے ممنوعہ عمر میں تبدیلی کے متنازعہ معاملے کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ ان ترامیم کے تحت کم عمری کی شادی کرنے والے کو 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی گئی تھی۔
کے پی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ، 2010، بچوں کی شادیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس کا سیکشن 30 کہتا ہے کہ بچوں کی شادی اور امتیازی رسم و رواج کے خلاف تحفظ ان موضوعات پر رائج وفاقی قوانین کے مطابق فراہم کیا جائے گا۔
1973ءکے آئین میں 2010ءمیں منظور شدہ اٹھارویں ترمیم کے بعد 
متعدد مضامین، جو پہلے ہم آہنگ قانون سازی کی فہرست میں تھے اور مرکز اور صوبوں کو اس سلسلے میں قانون سازی کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، کو اس کے خصوصی دائرہ اختیار میں لایا گیا۔ "شادی اور طلاق" سے متعلق مسئلہ، جو پہلے ہم آہنگ قانون سازی کی فہرست میں تھا، اب صوبائی موضوع بن چکا ہے۔ اسی طرح بچوں کا حق بھی قانون سازی کے مقصد کے لیے صوبائی موضوع ہے۔ قانونی ماہرین میمونہ بٹ، رابعہ خان کا کہنا ہے کہ 1929 کا قانون پرانا ہے اور اسے جلد از جلد تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں مجوزہ قانون کا نہ صرف جلد از جلد نفاذ ضروری ہے بلکہ اس پر صحیح طریقے سے عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔