رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ گزرے دنوں اور اچھی یادوں کی ٹولی کے ساتھ چلتا چلتا اب میں ایک اور شہر میں نکلا۔ لاہور کے بارے میں کہتے ہیں کہ جس نے نہیں دیکھا گویا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا یہ سند لینے میں بھی جرنیلی سڑک کے قدم سے قدم ملاتا ہوا وہاں پہنچا۔ وہ 1985ء تھا۔ مجھ سے پورے ایک سو برس پہلے 1885ء میں ہندوستان کے گورنر جنرل کی بیوی لیڈی ڈفرن بھی لاہور پہنچی تھیں اور وہاں سے اپنے ایک خط میں لکھاتھا: اماّں: لاہور میں چلو تو یوں لگتا ہے جیسے باغوں میں چلے جا رہے ہوں، اندرو ن شہر باغوں کو چھوڑئیے، اس شہر کے گرد پانچ میل لمبا ایک باغ ہے جو شہر کی فصیل کے ساتھ ساتھ چلا گیا ہے اور پورے لاہور کے گرد حلقہ کئے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت لیڈی ڈفرن نے لاہور دیکھا اس وقت یہ شہر بری طرح اجڑ چکا تھا۔ اصل لاہور ان غیر ملکیوں نے دیکھا تھا جو مغلوں کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ لاہور دراصل ایک بہت بڑا باغ ہے جس میں کہیں کہیں آبادی ہے لاہور کی تاریخ میں ستر سے زیادہ باغوں کا ذکر ملتا ہے وقت بدلا تو زیادہ تر میں ہل چل گئے۔
ان کی بارہ دریوں اور محلوں کاحسن ان کے چہرے سے نوچ لیا گیا جو کچھ لیڈی ڈفرن نے دیکھا وہ آثار قدیمہ کے مشہور ماہر ڈاکٹر سیف الرحمان صاحب کے بقول اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کے لاہور کی بھٹکتی ہوئی روح تھی۔ لاہور کے اجڑنے کی کہانی کے برعکس اس کے بسنے کی داستان بہت دلچسپ ہے پہلے پہل کس نے بسایا اور کب بسایا۔ اس کے تو بہت سے قصے ہیں مگر جب محمود غزنوی نے ہندوستان پر اپنے حملے شروع کئے اس وقت لاہور معمولی سا قصبہ تھا پنجاب کی راج دھانی کہیں سیالکوٹ کے پاس تھی۔ پھر ہوا یہ کہ محمود نے اپنی ہی صف میں کھڑے ہونے والے ایاز کو لاہور کا قاضی القضاۃ بنایا۔ ایاز نے اس شہر کو پنجاب کا صدر مقام قرار دیا غزنی کے بادشاہ کا یہ غلام لاہور ہی میں مرا اور یہیں دفن ہوا۔ باغوں کا شہر تھا، ایاز کی قبر ایک دلکش باغ میں بنائی گئی مگر بعد میں زمانے کی بدنصیبی نے وہ باغ اجاڑ کر وہاں ٹکسال بنا دی لوگ جانتے تک نہیں کہ رنگ محل کے پاس جس جگہ ٹکسالی بازار، کسیرا بازار اور سوہا بازار آکر ملتے ہیں وہیں ایاز کی قبر موجود ہے۔ ملک ایاز کے بعد دولت خان لودھی نے لاہور کو نکھارا اور سنوارا۔
اس کا باغ، فصیل، سرائے، باولی سب کچھ موجود تھا، اب نہیں ہے۔ مغلوں کو لاہور سے بہت لگاؤ تھا اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں کے علاوہ کامران اور داراشکوہ جیسے شہزادوں نے اسے بڑے قرینے سے سجایا۔ اکبر یہاں پندرہ برس رہا اور لاہور کو نہ صرف حسن بلکہ علم کی دولت سے بھی مالا مال کیا۔ جہانگیر نے تو لاہور کو دارالسلطنت قرار دیا اور اسی شہر میں دفن ہونا پسند کیا۔ اس کی ملکہ نورجہاں نے بھی یہیں کی خاک کو سب سے بہتر جانا۔ شاہ جہاں کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ لاہور میں پیدا ہوا، اس کے بیٹے داراشکوہ نے یہاں بہت وقت گزارا۔اورنگزیب کی بات کئے بغیر لاہور کی بات پوری نہیں ہوتی وہ اگرچہ جنوبی ہند کی سیاست میں الجھا رہا اور صرف دو تین مرتبہ لاہور آیا لیکن اس شہر کو اس نے بادشاہی مسجد جیسی عبادت گاہ عطا کی جو لاہور کی انگشتری میں نگینے کی طرح جڑی ہے اور اس کے قریب اکبر اور شاہ جہاں کا قلعہ، رنجیت سنگھ کی سمادھی، اقبال کی آخری آرام گاہ اور قرار داد پاکستان کی یاد گار۔
یہ سب تاریخ کی نشانیاں ہیں جو سمٹ کر ایک چھوٹے سے خطے میں سما گئی ہیں کہ دنیا اسے لاہور کے نام سے جانتی ہے۔پرانے لاہور کا حال سننے کو جی چاہا تو شہر میں میاں امیر الدین صاحب سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی نہ تھی۔ میاں صاحب کا گھرانا بہت پرانا ہے۔1985ء میں خود ان کی عمر چورانوے برس تھی، ماشاء اللہ۔ 1911ء میں وہ گریجویٹ ہوئے تھے خلافت تحریک میں وہ سرگرم تھے اور پاکستان کی تحریک میں آگے آگے تھے میں میاں امیر الدین صاحب سے ملا تو خوشی ہوئی۔ شہر لاہور کی طرح وہ بھی ضعیفی کے باوجود بہت زندہ دل تھے میں نے پوچھا کہ آپ کی نوجوانی کے دنوں میں شہر لاہور کتنا بڑا تھا؟ میاں صاحب نے بتایا ”اس وقت آبادی سرکلر روڈ کے اندر تھی، آبادی لاکھ ڈیڑھ لاکھ ہوگی۔ قلعے کی جنوبی دیوار کے میدان میں گیدڑ چلتے پھرتے رہتے تھے اور چھوٹا راوی کے پل کے پاس جنگلی مرغابیاں اترا کرتی تھیں۔