شہر نہ دیکھو‘ شہروالے دیکھو

مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ گوجرانوالہ شاید واحد ایسا شہر ہے جو خود نہیں بلکہ اس کے شہری قابل دید ہیں صحت مند اور ہنرمند‘  دنیا کے شہر اپنی مصنوعات اور اپنا مال برآمد کرتے ہیں گوجرانوالہ نے اپنے نامور برآمد کئے اپنے اہل علم اور اہل فن  بیرون شہر بھیجے‘ اس شہر کے بارے میں بہت کچھ سنا جاتا ہے مثلاً پہلوانوں کا‘ باڈی بلڈروں کا اور کھلاڑیوں کا شہر ہے یا شاعروں کا‘ ادیبوں‘ دانشوروں اور مدبروں کا شہر ہے اور یہ بات تو بہت سنی کہ بہترین کاری گروں کا شہر ہے جو اپنے چھوٹے چھوٹے ورک شاپوں میں دنیاکی بڑی بڑی مشینیں بناسکتے ہیں آپ انہیں کیسی ہی مشین دکھا دیجئے وہ آپ کو ویسی ہی مشین بناکر دکھا سکتے ہیں۔ اس وقت پورے پاکستان میں جدید آفسٹ چھاپے خانے، ہائیڈر الک پریس‘ کولڈسٹوریج‘ صابن‘ سیمنٹ اور شکر کے پلانٹ اور طرح طرح کے کارخانے چل رہے ہیں جن کا ذرا ذرا سا پرزہ یہی گوجرانوالہ اور آس پاس کے شہروں کے مستریوں نے خود ڈھالا ہے اور ایسی ایسی مشینیں بناکر کھڑی کردی ہیں کہ نہ صرف ان کی شکل وشباہت پر بلکہ کارکردگی پر بھی مغربی ملکوں کی جدید مشینوں کا گمان ہوتا ہے آپ کسی نئے شہر میں جائیں اور گاڑی سے اتریں تو پہلے کسی ہوٹل کا یا عزیز و اقارب کا پتہ پوچھتے ہیں میں نے گوجرانوالہ میں اتر کر یہ پوچھا کہ وہ مستری اور کاری گرکہاں ملیں گے جو ہر قسم کی مشینیں بنا دیتے ہیں۔
مہمان نواز لوگ ہیں انہوں نے میری انگلی تھامی اور مجھے لے جاکر محمد صدیق صاحب کے سامنے کھڑا کردیا چھوٹے شہر کے بظاہر چھوٹے سے کاری گر ہیں لیکن صابن سازی کے بڑے بڑے پلانٹ بناتے ہیں کہنے لگے کہ اپنی اس خدادا صلاحیت کے معاملے میں پاکستان کے کاری گردینا بھر میں مشہور ہیں بلکہ آپ چاہیں تو کہہ لیں کہ بدنام ہیں‘ سات آٹھ  برس ادھر اٹلی والوں نے آکر لاہور میں صابن سازی کا ایک پلانٹ لگایا تھا محمد صدیق نے اس میں ہاتھ بٹایا تھا بس! لیکن کچھ عرصے بعد وہ خود صابن سازی کے پورے پورے پلانٹ بنانے لگے کہتے ہیں کہ ایک اطالوی ماہر کو استاد بنایا تھا۔ بعد میں وہ استادکو سلام کرنے اٹلی گئے اور مشین سازی کی صنعت دیکھنے برطانیہ پہنچے اس کا بہت دلچسپ قصہ محمد صدیق صاحب نے خود سنایا‘ جب میں لندن میں گیا تو وہاں ایک ورکشاپ تھی جہاں مشینوں کو ری کنڈیشن کرتے تھے سب سے پہلے انہوں نے یہ سوال کیا کہ آپ پاکستانی ہیں؟ میں نے کہاجی ہاں پاکستانی ہوں‘ تو انہوں نے بڑے مایوس لہجے میں کہا کہ آپ برا نہ منائیں‘ آپ ذرا یہاں ٹھہر جائیں تو اسکے بعد ہم آپ کو اجازت دینگے اندر راؤنڈ لگانے کیلئے‘ اس کیوجہ پھر ہم نے دریافت کی تو کہنے لگے کہ جی‘ پاکستان سے جو بھی آدمی آتا ہے اسے ہم بالکل نئی مشینری دکھاتے ہیں اور کچھ روز بعد پاکستان جاکر دیکھتے ہیں تو وہاں بالکل ویسی ہی مشینری تیار پڑی ہوتی ہے اور حقیقت ہے کہ میرے ساتھ ایسا ہوا‘ میں نے ڈیڑھ مہینہ لندن گزارا تو ان لوگوں نے مجھے اتنا وقت دیا کہ جو مشینری آپ دیکھنا چاہتے ہیں اسکو دیکھ لیں لیکن آپ کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تو بڑی سے بڑی ورکشاپ انہوں نے مجھے دکھا دی لیکن سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی میں باہر آگیا۔
 محمد صدیق صاحب بتا رہے تھے کہ ان کے ورکشاپ میں آٹھ دس آدمی مل کر ایک سال میں ایک پلانٹ بنالیتے ہیں میں نے پوچھا کہ اتنی لمبی مشقت کی وجہ سے کیا وہ پلانٹ بہت مہنگا نہیں پڑتا؟ انہوں نے کہا نہیں‘ جو مشین غیر ممالک میں بنتی ہے اسکے مقابلے میں ہماری لاگت بہت کم آتی ہے مثلاً باہر سے ایک مشین ہمیں تیس لاکھ کی ملتی ہے تو ہماری دس لاکھ میں بنتی ہے اتنے آدمی لگانے کے باوجود بھی اور وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی اس سے سستی بنتی ہے‘ میں نے پوچھا کہ مشین بنانے کاآپ کا طریقہ کیا ہوتا ہے ایک ایک پرزے کو دیکھ کر ویسا بناتے جاتے ہیں یا کچھ اور کرتے ہیں؟ انہوں نے کہاجی ہاں اس طرح ہوتا ہے کہ جتنا چھوٹا کام ہوتا ہے وہ ہم اپنی ورکشاپ میں خود کر لیتے ہیں باقی جو بڑا کام ہوتا ہے جو ہم سے نہیں ہو سکتا اسے دوسری ورکشاپوں میں لے جاتے ہیں سیالکوٹ میں جگہ ملی لاہور میں جگہ ملی جیسی سہولت ہمیں جہاں ملی وہاں سے کام کرالیا وہ پھر لاکر یہاں جوڑ لیتے ہیں میں نے پوچھاکہ وہ اوراس وقت گوجرانوالہ میں یہاں کے کاریگر کس کس طرح کی مشینیں بنارہے ہیں؟ محمد صدیق صاحب نے کہا ہائیڈرالک پریس بناتے ہیں لیتھ مشین بناتے ہیں اچھی قسم کی لیتھ مشین بناتے ہیں کچھ ایسے بھی آدمی ہیں جو اعلیٰ قسم کی مشینیں بناتے ہیں دیکھنے والا نہیں بتا سکتا کہ یہ پاکستان میں بنی ہیں یا کسی صنعتی ملک میں۔