ایک یادگار تفریح

میونسپلٹیوں کے نظام کے مطالعہ کے سلسلے میں مجھے ہالینڈ کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی جانا پڑتا تھا ایک جگہ میری رہائش کابندوبست ایک ایسے خاندان میں ہوا جس میں پانچ بیٹیاں اور چار لڑکے تھے۔اتوار کے روز سارے خاندان نے بائیسکلوں پر سوار ہوکر پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا گھر میں گیارہ بائیسکل موجود تھے جو میاں بیوی اور بچوں میں بٹ گئے میرے لئے بارہواں بائیسکل کسی ہمسائے سے عاریتاً مانگ لیاگیا ہمارا قافلہ سائیکلوں پر سوار ہوکر باہر نکلا تو چاروں طرف سڑکوں پر بائیسکل ہی بائیسکل نظر آئے ہالینڈ کی سرزمین اتنی ہموار ہے کہ بائیسکل کو یہاں پر قریباً قریباً قومی سواری ہونے کا درجہ حاصل ہے بہت سی سڑکوں پر بائیسکل چلانے والوں کے لئے الگ الگ راستے ہیں کبھی کبھار ملکہ جولیانہ بھی سائیکل پر سوار ہو کر شہر میں نکل جاتی ہیں ہمارا قافلہ ایک پارک میں جاکر رکا بھوک سے میرا برا حال ہورہا تھا مجھے توقع تھی کہ اب ہماری خاتون خانہ لذت کام ودہن کا انتظام فرمائیں گی‘اس کے برعکس انہوں نے اپنا پر س کھولا اور پیپر منٹ سویٹ کی ایک ایک گولی تقسیم کرکے ہم سب کوہدایت کی ’اسے چبانا مت‘ دھیرے دھیرے چوسنا۔
گولیاں چوس کر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد اسی طرح بھوکے پیاسے پھر بائیسکلوں پر سوار ہوکر رخت سفر باندھا راستے میں ایک گاؤں سے گزر ہوا جہاں بڑا بارونق بازار لگا ہوا تھا خوب گہما گہمی تھی اور طرح طرح کا مال واسباب بک رہا تھا ایک دکان پر گرما گرم مچھلی تلی جارہی تھی میں نے اس طرف ذراللچائی ہوئی نظروں سے دیکھا تو میری میزبان نے بڑی مروت سے پوچھا’تمہیں تلی ہوئی مچھلی پسند ہے؟ میں نے بڑے زور سے اثبات میں سرہلایا اور منہ میں سیروں پانی بھر کر انتظار میں کھڑا ہوگیا‘لیکن یہ مچھلی بھی پانی سے نہیں سراب سے پکڑی ہوئی تھی اس نے پاؤ بھر مچھلی تلواکر ایک مومی کاغذ میں لپیٹی اور اسے اپنے پرس میں حفاظت سے بند کرلیا جب ہم واپس گھر پہنچے تو ڈنر کا ٹائم قریب تھا خاتون خانہ نے تلی ہوئی مچھلی کو چورا چورا کرکے ایک پیالہ میں ڈالا اور اس میں ٹماٹر کی چٹنی اور سرکہ ملا کر لسی بنالی اسے اس نے مکھن کی طرح بہت سے توسوں پر لگادیا ساتھ ہی بھاپ دیتے ہوئے سوپ بتا دیا اور ابلے ہوئے آلوؤں کا ڈھیر کھانے کی میز پر آگیا اور دن بھر کی مشقت کے بعد ہم اتوار کے خصوصی ڈنر سے سرخرو ہوگئے ایسے موقعوں کے لئے میں احتیاطاً بسکٹوں کے کچھ پیکٹ اپنے سوٹ کیس میں چھپا کر رکھا کرتا تھا میرا ارادہ تھا کہ بستر میں لیٹ کر رہی سہی کسر اپنے بسکٹوں سے پوری کرلوں گا‘لیکن اس کا موقع بھی ہاتھ نہ آیا‘ کیونکہ دوبڑے لڑکے میرے کمرے میں سوتے تھے اور وہ دیر تک آج کی پکنک کے خوشگوار پہلوؤں پر بڑی گرم جوشی سے تبصرہ کرتے رہے۔(شہاب نامہ سے اقتباس)