معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر آزادی کے بعد کے حالات اور خصوصاً کراچی میں آباد ہونیوالی بستیوں سے متعلق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مارٹن روڈ پر سرکاری ملازموں کے کوارٹرز تھے‘ وہاں رہنے والے متوسط درجے کے لوگ تھے‘ ان سب کی سوچ‘ سب کا طرز زندگی ایک جیسا ہی تھا‘ ان سب کے مسائل ایک جیسے تھے‘ مالی پریشانیوں میں گرفتار‘ غربت کے ستائے ہوئے مگر یہ لوگ ساتھ رہنے کے باوجود آپس میں کوئی خاص میل جول نہیں رکھتے تھے‘ ایک دوسرے سے جان پہچان بھی کم تھی‘ جب ہمیں یہاں رہتے ہوئے کچھ وقت گزرا تو معلوم ہوا کہ ان ”چھوٹے چھوٹے“کوارٹروں کے مکینوں میں تو بہت سے بڑے بڑے لوگ بھی بستے تھے‘ ان لوگوں میں معروف ادیب اور دانشور جمیل جالبی‘ ناول نگار قرۃ العین حیدر اور شاہد احمد دہلوی شامل تھے‘ کئی نامور کرکٹر اور ہاکی کے مشہور کھلاڑی بھی تھے
‘ گلوکار مسعودرانا‘ احمد رشدی‘ مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی‘ ریڈیو پاکستان کی ہردلعزیز اناؤنسر شائستہ بیگم‘ نیوز ریڈر شکیل احمد انہی کوارٹروں کے مکین تھے‘ مصور اور مشہور خطاط صادقین کا بسیرا اپنے بھائی کیساتھ تھا‘ جو ریڈیومیں نیوز ایڈیٹر تھے‘ غرض فنون لطیفہ‘ کھیل‘ صحافت اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات جو مستقبل میں عالمی وی آئی پی بننے والی تھیں‘ انہی کوارٹروں کی رہائشی تھیں‘ پھر ایک بڑی اچھی خبر سنی گئی‘ مارٹن روڈ سے متصل سڑک کے پار ایک بہت بڑے رہائشی منصوبہ کی داغ بیل ڈالی جانے لگی جس کانام ”پیر الٰہی بخش کالونی“رکھا گیا تھا‘ یہ سندھ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کے نام پر تھی‘ پاکستان کے ابتدائی دنوں کے واقعات اور حالات میں ایک عجب طرح کا رومانس تھا‘ سڑکوں پر‘ بازاروں میں‘ گھروں میں تمام لوگوں کو کم وبیش ایک ہی طرح کی صورتحال کا سامنا تھا‘ ایک نئے ملک کے نئے شہری‘ نئی مشکلات اور دشواریوں کے کچھ اس طرح کی کیفیت سے دوچار تھے‘ جو کسی بھی انسان کو صرف ایک دفعہ نصیب ہوتی ہے‘ یہ ایک نئی پیدا ہونیوالی قوم کی کیفیت تھی‘ جو باتیں آج ہم صبح سے شام تک سنتے ہیں‘ ان دنوں ان کی یہ صورت نہ تھی‘ مسائل شاید آج کی نسبت کہیں زیادہ تھے اور وسائل کہیں کم مگر پھر بھی نئے راستوں پر چلنے والے یہ مسافر ایک عجیب سے نشہ سے سرشار تھے‘ ایک ایسی بے خودی اور سرخوشی جس نے انہیں مکمل طور پر اپنایا ہوا تھا‘ وہ پریشان تھے مگر مایوس نہیں تھے‘ غربت تھی
لیکن شکایت نہیں تھی‘ ہر صبح ایک نیا مسئلہ اپنی آغوش میں لئے طلوع ہوتی تھی اور پھر ہر کوئی سارا وقت اسی کا حل تلاش کرنے میں گزاردیتا‘ روزگار کی تلاش‘ مکان کی تلاش‘ پیچھے رہ جانے والوں کی یادیں‘ نئے دوست اور نئے آشنا ڈھونڈنے کی تگ ودو اور سب سے بڑھ کر ان مسائل اور دشواریوں سے نجات حاصل کرنے کی کاوشوں کی راہ میں حائل بے شمار رکاوٹیں‘ یہ ان دنوں ہر فرد کا مسئلہ تھا مگر سب کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ ان مسائل کا حل ڈھونڈ نکالیں گے‘ ان کو یہ علم بھی تھا کہ یہ ساری پریشانیاں اور مشکلات انفرادی ہونے کے علاوہ اجتماعی نوعیت کی بھی ہیں‘ قوم کو اور نئی نئی قائم ہونیوالی حکومت کو ایک نئے معاشرے کی تشکیل کیلئے کیا کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے‘ یہ صرف سرکار کا ہی نہیں ہر شہری کا مسئلہ بھی تھا۔