ذرائع ابلاغ میں ریڈیو کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتامعروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کے مطابق ایک وقت یہ عالم تھا کہ ہر گھر میں ریڈیو موجود تھا‘ عرب ممالک سے آنے والے ہر شخص کے ہاتھ میں ٹرانسسٹر ریڈیو ہوتاتھا اسے گھر کے سب سے اونچے مچان پر رکھا جاتا تاکہ بچے اس کیساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور اس کی سوئی جو بڑے جتن کرکے بی بی سی پر لگائی گئی ہے‘ وہ اپنی جگہ سے سرک نہ جائے۔پھر گھر میں وہ کمرہ یا وہ گوشہ تلاش کیا جاتا جہاں بی بی سی کی آوازصاف اور اونچی آتی تھی۔ اس میں بھی مشکل ہوتی تو مقررہ وقت پر ریڈیو گھر کی چھت پر لے جایا جاتا‘سارے گھر والے اس کے گرد بیٹھتے بعض اوقات پاس پڑوس اور محلے والے بھی آ جاتے اور یہ سارا مجمع چپ سادھ کر لندن سے آنے والی خبریں سنتا۔صاف اوراونچی آواز سننے کیلئے کچھ لوگ اپنی کاروں میں بیٹھ کر آبادی سے دور چلے جاتے جہاں نہ ٹریفک کا شور ہوتا اور نہ ریڈیو کی آواز میں گڑبڑ کبھی کبھی تو ریڈیو کے گرد جمع ہونے والوں کو چپ سادھ کر بیٹھنے کی اتنی سخت ہدایت ہوتی تھی
کہ لوگ شاید سانس بھی آہستہ لیتے ہوں گے پھراس کیفیت کا ایک دلچسپ منظر اور بھی ہوتا‘ عین خبروں کے وقت علاقے میں خاموشی چھا جاتی اور اس سناٹے میں ہرگھر سے ایک ہی آوازبلند ہوتی‘ بی بی سی لندن کی آواز۔ ایک بار مجھے مکران کے ساحل پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں بی بی سی کی نشریات بہت صاف سنائی دیتی تھیں یہ بات شہر پسنی کی ہے‘ بی بی سی کی نشریات کے وقت اتنے بہت سے ریڈیو کھل گئے کہ مجھے کسی ریڈیو کے سامنے بیٹھنے کی ضرورت نہیں پڑی‘ ایک دنیا مارک ٹلی کے نام سے واقف تھی۔کہیں کوئی سفید فام نامہ نگار نظر آجاتا‘ لوگ اسی کو مارک ٹلی سمجھ بیٹھتے ایسے میں مغربی ملکوں کے چند ایک نامہ نگاروں نے خود کو مارک ٹلی کانام دے کرخوب خوب فائدہ اٹھایا‘ ایک اور مقا م پر رضا علی عابدی اپنی سرگرشت میں لکھتے ہے کہ ماہ رمضان کی تپتی دھوپ میں ہماری بس کھاریاں پہنچی‘
کھاریاں کا یہ سارا خطہ بنجر پڑا تھا اور میں بس کی کھڑکی سے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر سایہ ڈھونڈ رہا تھا‘ اس سائے کا معاملہ عجیب ہے‘ آس پاس کہیں موجود نہ ہو تو آنکھیں اسے تلاش کرتی ہیں‘ موجود ہو تو چاہے اسکے تلے جانے کی ضرورت نہ پڑے تب بھی یہ اطمینان رہتا ہے کہ سایہ موجود ہے‘ اس روز دہکتی ہوئی سوکھی زمینوں کا سفر طے کرنے کے بعد جب گھنے درخت آئے تو تشفی سی ہوگی‘ میرے ایک ہم سفر نے کہا کہ درخت آگئے‘ اب گجرات قریب ہے‘ گجرات میں اکبر کی تین نشانیاں مجھے زبانی یاد تھیں۔حصار، یعنی قلعہ تو دور سے نظر آنے لگا‘ نیچے سے ٹیلے کی چوٹی تک بہت اونچی فصیلیں اٹھائی گئی ہیں اور ان پر پتھر اتنی صفائی اور مضبوطی سے چنے گئے ہیں کہ اب تک ایسے صحیح سالم رکھے ہیں،
معلوم ہوتا ہے مزدور ابھی ابھی اجرت لے کر اور سلام کرکے گئے ہیں۔قلعے تک جانے کیلئے مسلسل چڑھائی ہے‘ اس چڑھائی کی دونوں جانب دکانیں اور مکان ہیں‘ اتفاق سے باؤلی اور کہنہ حمام اس راستے میں مل گئے‘ باؤلی یعنی کنواں کبھی یوں رہا ہوگا کہ لوگ اس تک آسانی سے پہنچ سکیں مگر اب وہ مکانوں کے دالان میں آگیا ہے‘ ہم صاف ستھرے، بلندی پر بنے ہوئے ہوادار کمروں کی دہلیزوں سے گزر کر کنویں تک پہنچے۔آپ نے کبھی سوچاہے کہ آپ اگر کوئی کنواں دیکھنے جائیں تو اس کے اندرجھانکتے ضرور ہیں‘ جرنیلی سڑک کے اس سفر میں ہم نے ایسے ایسے بہت سے کنویں جھانکے‘ اس گجرات کے کنویں پر ایک بہت پرانی عبارت دکھائی دی‘ کسی خوش خط پینٹر نے اردو اور گور مکھی میں لکھا تھا‘براہ کرم کنویں کے اندر کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں۔
ہم نے جلدی سے جھانک کر دیکھا‘ اندر کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔اس باؤلی سے ملا ہوا‘اوپر چڑھتی ہوئی بازار نما سڑک کے کنارے اکبر کا بنوایا ہوا حمام بھی تھا‘ یہاں غسل خانوں کے فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی تھی اور لوگ بھاپ میں غسل کرتے تھے‘ ترکی کا یہ رواج ہندوستان میں قائم نہ رہ سکا لیکن گجرات کے اس حمام میں آج بھی فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے اور لوگ اپنے ہی پسینے اور بھاپ میں نہاتے ہیں۔