مجھے جواہر لال نہرو روڈ پر(جو اب قائداعظم کے مزار کے سامنے ہے) ایک مکان کا نچلا حصہ کرائے پر مل گیا اوپر والی منزل میں ہندو مالک مکان خود رہتا تھا اس نے اپنا خاندان اور مال و اسباب تو بھارت بھیج دیا تھا اور اب مکان اور دکان کو اچھی قیمت پر فروخت کرنے کے انتظار میں یہاں رکا ہوا تھا ساٹھ ستر کا یہ بزرگ شخص بڑا سخت گیر مالک مکان ثابت ہوا ایک تو اس نے تین چار کمروں کا کرایہ ایسا کس کے لگایا کہ اس میں میری آدھی تنخواہ صاف نکل جاتی تھی دوسرے وہ بجلی اور پانی کے استعمال پر نہایت کڑی نگاہ رکھتا تھا آدھی رات کو بھی ضرورتاً کسی کمرے کی بجلی جلائی جائے تو سوئے ہوئے مالک مکان کی چھٹی حس فوراً بیدار ہو جاتی تھی اور وہ واویلا مچانا شروع کر دیتا تھا کہ ”بتی بند کرو‘ بتی بند کرو“ بجلی مفت نہیں ملتی کہ ساری ساری رات جلا کر عیش کیا جائے۔
انہی دنوں کراچی میں ہلکا سا ہندو مسلم فساد ہوگیا کچھ سامان بیچ باچ کر ہمارے مالک مکان نے ڈھائی لاکھ روپیہ نقد جمع کیا ہوا تھا اسے خدشہ محسوس ہوا کہ اگر مسلمانوں نے اسکے مکان پر حملہ کیا تو نقدی بھی لٹ جائے گی حفظ ماتقدم کے طور پر وہ یہ پونجی ماں جی کے پاس امانت رکھنے کیلئے آیا وہ روپے گن کر دینا چاہتا تھا لیکن ماں جی کو دس کے بعد گنتی ہی نہ آتی تھی اسلئے مجھے سامنے بٹھاکر اس نے ڈھائی لاکھ روپیہ دوبار گنا اور اسے ایک چمڑے کی تھیلی میں تالہ لگاکر ماں جی کے حوالے کر دیا مجھ سے اس کی رسیدلکھواکر اپنے پاس محفوظ کرلی ماں جی نے اس امانت کی بڑی رکھوالی کی رات کو وہ اس تھیلی کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوتی تھیں نماز کے لئے بھی وہ اسے اپنے گھٹنے کے ساتھ لگا کر بیٹھتی تھیں دو تین روز میں امن وامان قائم ہوگیا بزرگ مالک مکان نے مجھے پھر سامنے بٹھاکر ڈھائی لاکھ روپیہ دوبارہ گنا‘ رسید مجھے لوٹائی اور اپنی امانت بغل میں دباکر اوپر والی منزل میں واپس چلا گیا۔
میرا خیال تھا کہ ہماری اس خدمت گزاری کے عوض مالک مکان بجلی اور پانی کے سلسلے میں شاید اب ہمارے ساتھ کسی قدر نرمی کا برتاؤ دکھائے گا کئی بار تو وہ بجلی کا مین سوئچ سرشام ہی بجھا کر بیٹھ جاتا تھا اور ہم موم بتی جلا کراپنا کام چلاتے تھے رات کو پنکھا چلا کر سونا تو بڑی دور کی بات تھی ایک دوبار میں نے ارادہ بھی کیا کہ اس بزرگ شخص سے اس بارے میں جھگڑا کروں لیکن ماں جی نے یہ کہہ کر منع کردیاکہ بیچارہ دکھی ہے بے گھر ہو کر بمبئی جارہاہے اس وقت اس کا دل بالکل نہیں دکھانا چاہئے۔
(قدرت اللہ شہاب کی کتاب
شہاب نامہ سے اقتباس)