پر لطف زندگی

میرے گھر کی طرف جو سڑک جاتی ہے وہ ایک بار نئی بنی تو میں بڑا خوش ہوا کہ چلو اچھا ہوا اب سڑک نئی بن گئی ہے لیکن خواتین و حضرات اگلے دن جب میں سڑک پر آیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کئی مزدور اس نئی نویلی سڑک کو کھودنے میں مصروف ہیں‘ میں نے گاڑی سے منہ باہر نکال کر ان سے پوچھا کہ وہ نئی سڑک کو کیوں اس طرح ادھیڑ رہے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ ”صاحب سوئی گیس کی پائپ سڑک سے دوسری طرف لے جانی ہے۔“مغرب جسکی زیادہ تعریف کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا اور آپ کو بھی نہیں لگتا ہوگا کیونکہ ہمیں اپنی مٹی بڑی پیاری ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں تعمیرات یا اپنے عوام کوسہولتیں دینے کے حوالے سے کچھ ضروری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے‘میں اٹلی میں بہت عرصہ رہا۔ وہاں اگر کوئی نئی سڑک بننی ہو تو اسکی تعمیر کا ٹینڈر پاس ہونے سے پہلے سڑک سے متعلقہ تمام محکموں (ظاہر ہے ان میں گیس‘ فون‘ سینی ٹیشن وغیرہ سب شامل ہیں) سے پہلے اس حوالے سے معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں کہ سڑک تعمیر ہو رہی ہے کسی محکمے کو اگر اپنا متعلقہ کام کرنا ہے تو بتایا جائے کہ کتنی مدت لگے گی۔ اسکے بعد سڑک تعمیر ہوتی ہے اوراتنی عمدہ سڑکیں ہیں کہ بارش کے چند منٹ بعد آپ باہر نکلیں تو سڑکیں آپ کو صاف اور دھلی ملیں گی۔ کہیں پانی کھڑا ہوا نہیں ہوگا۔خیر بات کار سرکار کی ہو رہی تھی اور اپنی مٹی کی۔سرکاری کام کا اندازہ اس سے لگاتے ہیں کہ یونین کونسل نے اپنے خرچ پر ایک پل تعمیر کیا۔ تعمیر کرچکنے کے بعد کمیٹی نے ضرورت محسوس کی کہ اس پل کی نگہداشت کیلئے ایک چوکیدار کی ضرورت ہے‘چوکیدار مقرر ہوگیا  اب اس کی تنخواہ بھی دینی تھی۔ کونسل نے پھر ہنگامی میٹنگ بلائی جس میں طے کیا گیا ایک اکاؤنٹنٹ بھی بھرتی کیاجائے جو اسکی تنخواہ کا حساب رکھے اور وقت مقررہ پر تنخواہ ادا کرے چنانچہ وہ بھی مقرر ہوگیا۔ پھر ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کے کام کی نگرانی کیلئے ایک ایڈمنسٹریٹر بھی ہوناچاہئے اسے بھی رکھ لیاگیا‘ چند سال ایسے ہی کام چلتا رہا پھر کونسل کو اپنے اخراجات میں کمی کی ضرورت محسوس ہوئی توانہوں نے چوکیدار کو نوکری سے نکال دیا۔ٹھیک ہے حکومتوں کی بھی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں لیکن کچھ ذمہ داریاں ہماری اپنی بھی ہیں کہ ہم اپنے آپ‘ اپنے اردگرد اور اپنے لوگوں کیلئے انفرادی طورپر کیا کرتے ہیں‘اس قومی وحدت کو اندیشوں اور نظر بد سے بچانے کیلئے کیا کرتے ہیں‘آپ یقین مانئے کہ مجھ سے اس قومی وحدت کیلئے کچھ نہیں ہوسکا‘ میں نے شاید اس کیلئے اپنے کردار کی ضرورت ہی محسوس نہیں کیا یا پھر میں اپنے جھمیلوں سے ہی نہ نکل سکا لیکن ایک بات میری روح پر ضرور بوجھ ڈالتی ہے‘جب میں کہیں پانی کا کوئی فضول کھلا ہوا نل یا کوئی بجلی کا بلب بلا ضرورت جلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرے دل میں سے یہ آواز آتی ہے کہ اگر یہ نل یا بلب بلاوجہ چل رہاہے تو ملک میں یہ کسی نہ کسی کا حق تھا جو اس سے محروم ہو رہا ہے۔(اشفاق احمد کی نشری تقریر سے منتخب اقتباسات)