حکومت کے بعد احترام

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرلیاگیا ان کی سلطنت چھن گئی انگریز گورنر کو حکم ہوا کہ انہیں رنگون بھیج دیا جائے وہاں یہ اپنی باقی ماندہ زندگی گذاریں‘ بہادر شاہ ظفرکی گرفتار ی اور جلا وطنی کا حکم ایک دنیا کیساتھ واجد علی شاہ نے بھی سنا وہ بھی انگریزوں کی چوٹ کھائے ہوئے تھے اودھ کے تخت سے محروم کرکے انہیں کلکتے میں نظر بند کردیاگیا تھا بس ایک ہی طمانیت تھی کہ بہت رقم وظیفے میں ملتی تھی کلکتہ پہنچ کر انہوں نے مٹیا برج آباد کیا‘واجد علی شاہ نے سنا بہادر شاہ ظفر رنگون بھیجے جارہے ہیں کلکتے سے ہوکر جائیں گے تو انگریز حکمرانوں سے کہا کہ کلکتے میں انہیں شاہ ظفر کی دعوت کرنے کی اجازت دی جائے انگریزوں نے اجازت دیدی مگر شہنشاہ ظفر نے دعوت قبول نہ کی البتہ کہلوادیا کہ …… میں تم سے مٹیا برج میں دوگھڑی کو مل لونگا وقت مقررہ پر وائسرائے بھی وہاں پہنچ گیا کہ اس ملاقات کا منظر دیکھے یہ بادشاہ اور صوبہ دار کی ملاقات تھی یہ اور بات ہے کہ بادشاہ کی حالت اس وقت بالکل گئی گذری تھی اور صوبہ دار کے ٹھاٹ باٹ اب بھی بہت کچھ تھے واجد علی شاہ بھاری بھر کم آدمی تھے لیکن جو لوگ وہاں جمع تھے انہوں نے دیکھا کہ جیسے ہی بہادر شاہ ظفر مٹیا برج میں داخل ہوئے واجد علی شاہ کے ہاتھ میں ایک مرصع عصاتھا ہیروں موتیوں سے جگمگ جگمگ کرتاعصاوہ انہوں نے بڑھ کربادشاہ کو پیش کیا۔
بہادر شاہ ظفر نے کہا‘وہ دن نہیں وہ زمانہ نہیں رہا لیکن واجد علی شاہ اپنا مقام بھی جانتے تھے اور مغل شہنشاہ کی عظمت بھی پہنچانتے تھے منت کرتے رہے کہ قبول فرمالیجئے‘ورنہ میری خاندانی روایات پر پانی پھر جائے گا آخر بادشاہ نے عصالے لیا ’یاد ایام‘ میں عبدالرزاق کا نپوری نے لکھا ہے کہ معزول شہنشاہ کے ہاتھ میں زمرد کی تسبیح تھی وہ انہوں نے ازراہ مہربانی واجد علی شاہ کو عنایت فرمائی واجد علی شاہ نے اسے لے لیا پھر فرط مسرت اور کمال ادب سے بڑھ کر بادشاہ کے ہاتھ چوم لئے ملاقات اس پر ختم ہوئی اور بہادر شاہ لوٹ گئے‘ وائسرائے عقیدت اور عطا کے اس منظر کو سرجھکائے خاموشی سے دیکھتا رہا ……ستارہ عروج پرہو تو سبھی جھکتے ہیں ستارہ گردش میں ہو پھر بھی بڑوں کو بڑا سمجھنا ان کا احترام کرنا ایک شریفا نہ فعل ہے۔ دومیاں بیوی میں آپس میں اختلاف تھا اور بالکل طلاق کی نوبت آنے کیلئے تیار‘وہ بیوی ایک بزرگ کے پاس گئی اور پورا واقعہ بیان کیا۔
انہوں نے تدبیر بتائی کہ جب تیرا شوہر گھر میں آئے اور لڑائی کرے‘جھگڑا کرے‘پانی منہ میں بھر لینا اور بیٹھ جانا پانی نگلنا بھی نہیں اور باہر نکالنا بھی نہیں جب تک شوہر کا غصہ ختم نہ ہوجائے پانی منہ میں لئے رہنا چنانچہ اس نے حضرت جی کی بات پر عمل کیا عادت کے مطابق لڑائی شروع کی جھگڑا شروع کیا یہ جلدی سے اٹھی اور بوتل سے پانی منہ میں لیا اور بیٹھ گئی‘حکم تھا نگلنا بھی نہیں نکالنا‘اب جواب دے گی تو پانی نکل جائے تو اسلئے وہ اب نہیں بولتی بالکل خاموش بیٹھی ہوئی ہے پانچ منٹ ہوئے دس منٹ ہوئے آخر شوہر گالی دیتے ہوئے برا بھلا کہتے ہوئے عاجز آگیا اور سوچا کہ یہ تو کوئی جواب نہیں دیتی اب اسے پھر شرمندگی ہوئی کہ یہ جواب نہیں دیتی‘اور میں اسے برابر گالیاں دے رہا ہوں اب اسے ذرا ندامت ہوئی لیکن پھر سوچا ممکن ہے اتفاق سے آج ایسا ہو ورنہ یہ ایسی نہیں تھی یہ تو بڑی زبان چلاتی تھی اب میں دوسرے وقت میں پھر دیکھوں گا کہ زبان چلاتی ہے کہ نہیں‘پھر دوسرے وقت میں آیا اور پھر اسی طرح گیا اس نے کہا بھائی یہ بیوی تو واقعی پہلے جیسی بیوی نہیں رہی جواب ہی نہیں دیتی اب اسے اور زیادہ شرمندگی ہوئی لیکن اس نے سوچا ابھی تو دو مرتبہ ہی ہوا ہے۔
ہوسکتا ہے یہ اتفاق ہو پھر تیسری مرتبہ دیکھا چوتھی مرتبہ دیکھا اور وہ کوئی جواب نہیں دیتی‘جلدی سے پانی منہ میں لیکر بیٹھ جاتی‘جواب ہی نہیں دیتی‘اب شوہر نے سوچ لیا کہ واقعی اب تو یہ بیوی پہلے جیسی نہیں ہے‘اب تو یہ برداشت کرنے والی بن گئی صبر کرنے والی بن گئی میری بات کا جواب تک نہیں دیتی‘میں بھی اب اسے کچھ نہیں کہوں گا اب الٹا بیوی سے معافی مانگتا ہے‘میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں میں نے تجھے بہت ستایا ہے تیری کوئی غلطی نہیں تو بہت اچھی بیوی ہے غلطی میری ہے‘ شوہر الگ سے معافی مانگ رہا ہے بیوی الگ سے معافی مانگ رہی ہے یا تو وہ طلاق کی نوبت تھی اور گھر برباد ہونے کو تھا اور اب آپس میں معافی تلافی ہوکر ایک ذرا سی تدبیر کرنے کی وجہ سے اور صبر کرنے کی وجہ سے گھر برباد ہونے سے بچ گیا۔(شاہ بلیغ الدین کے ریڈیو پاکستان سے نشر بیان سے اقتباس)