سہانی صبح 

 صبح کا وقت بڑا سہانا ہوتا ہے صبح کا وہ وقت جب پوپھوٹ رہی ہوتی ہے چڑیاں چہچہا رہی ہوتی ہیں لیکن ایک وہ ہی وقت ہوتا ہے جب سورج کی روشنی اپنی پوری لمبائی کیساتھ زمین کو چھونے لگتی ہے‘ یہ وقت ہوتا ہے جب ہماری یاد میں بھولے بسرے واقعات بڑی وضاحت اور شدومد کیساتھ ابھرنے لگتے ہیں جب ہم بچپن میں تھے تو اپنے دیگر ساتھیوں سے لڑائی بھی ہوتی تھی‘ناراضگی بھی لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم میں سے بھی کسی کو بھی اگلے دن کسی کو منانے کی ضرورت پیش آتی ہو یا کوئی گلہ دل میں رہ گیا ہو ویسے ہی ہنستے کھیلتے لڑتے جھگڑتے دن گزر جاتا تھا لیکن اب ہم نے اپنا الگ ہی طرز فکر اختیار کرلیا ہے خواتین وحضرات! میرے ماموں کا اپنا ایک فلسفہ تھا وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ ’تم لوگوں کو اپنے سے اچھا صلہ لے لینے دو‘انہیں تمہیں ٹھگ لینے دو اگر تم ان سے جھگڑا نہیں کرو گے‘ مباحثہ نہیں کروگے وہ صلح جو ہوجائیں گے ہتھیار پھینک دیں گے اچھے اور شریف ہوجائیں گے اور یقین کرنا بیٹا‘انسان اچھا اور شریف ہونا چاہتا ہے لیکن اس کو موقع نہیں ملتا انہیں اچھا ہونے کا موقع ضرور فراہم کرنا‘اسوقت تو میں ماموں کی اس بات کو اس طریقے سے نہیں سمجھ پاتا تھا میں اب محسوس کرتا ہوں کہ میں ان باتوں کو کچھ کچھ سمجھنے لگا ہوں کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو خرابی ہم میں موجود ہوتی ہے‘ہم خیال کرتے ہیں کہ یہ خرابی ضرور دوسروں میں بھی ہوگی میں آپ کو ایک دلچسپ بات سناتا ہوں میں جب بجلی‘ ٹیلیفون یا کوئی اور بل وغیرہ جمع کرانے کیلئے بینک کی اس کھڑکی پر کھڑا ہوتا ہوں جہاں لوگ صبح سویرے آکرہی کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ وہ بل جمع کروا کراپنے اپنے کاموں کی طرف جاسکیں‘میں جب بینک کی کھڑکی پر کھڑا بل جمع کروارہا ہوتا ہوں تو کئی بار میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ میں نے اپنے یوٹیلیٹی بلز کے جو پیسے کیشیئر کو تھما دیئے ہیں یہ ہی نہ ہو کہ وہ پیسے لے کر یہ کہے کہ آپ نے تو مجھے پیسے دیئے ہی نہیں اب میرے پاس اسے پیسے دینے کی کوئی رسید بھی نہیں اور میں کیسے کسی اور کو یقین دلاؤں گا کہ میں نے واقعی کیشیئر کو پیسے دے دیئے ہیں لیکن وہ کیشیئر بڑا ہی ایماندار ہوتا ہے اس نے میرے گہرے خدشات کے باوجود آج تک مجھے نہیں کہا کہ میں نے اسے پیسے ادا نہیں کئے اور وہ نہایت شریف النفس اور دیانتدار کیشیئر میرے بلوں پر ٹھکا ٹھک مہر یں لگا کر اور دستخط کرکے بل آدھے پھاڑ کرمیرے حوالے کردیتا ہے ہمارے انگریزی کے استاد ہمیں کہا کرتے تھے کہ تم اپنے اندر اپنے بچپن کو کبھی نہ مرنے دینا اس طرح تم بوڑھے نہیں ہوگے اگر تم اپنے بچپن کو اپنے اندر سنبھال کر نہ رکھ سکے تو پھر تمہیں بوڑھے ہونے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔(اشفاق احمد کی نشری تقریر سے منتخب اقتباسات)