ناقابل فراموش منظر

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ہم نے ڈلہوری سے چمبہ کو جانے کا ارادہ کیا‘ صبح سویرے احمد اور میں ہاتھوں میں بیگ لٹکائے شانوں پر کمبل ڈالے اس ٹیلے پر چڑھ گئے جہاں سے چمبے کی ڈنڈی نکلتی ہے سڑک تقریباً ہموار تھی‘چاروں طرف خوشنما مناظر بکھرے ہوئے تھے احمد ہرموڑ پر رُک جاتا‘ آہا‘ بھئی یہ بھی دیکھنا‘ دیوداروں کا جھنڈ اور نیچے آبشار کا گرتا ہوا دھارا‘ اتفاق سے چند ہی قدموں کے بعد ہمیں ایک لکڑی والا مل گیا۔بڑے میاں چمبے کو کون سا راستہ جائے گا۔ سیدھے اسی سڑک پرچلے جائیے۔ پھر بائیں طرف کو ایک ڈنڈی پھوٹے گی وہ آپ کو چمبے لے جائے گی۔کتنی دور ہے۔بارہ کوس۔ تحقیقات کے بعد ہم اطمینان سے آگے چل پڑے۔ آہا بھئی یہ دیکھنا احمد چلایا۔ بھئی ادھر بھی دیکھو ذرا…… میں نے شور مچایا۔ اسی طرح چلتے چلاتے دوپہر کے قریب ہم نے پھر ایک راہ گیر سے پوچھا۔ میاں چمبے کو یہی راستہ جاتا ہے نا؟جی‘ وہ بولا۔ سیدھے اسی سڑک پر چلتے جائیں‘ بائیں طرف ایک ڈنڈی نکلے گی۔ واہ واہ‘ احمد چلایا۔اس منظر کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔اور ادھر بھی تو دیکھو میں نے اسے کہا‘ اور ہم چلتے رہے۔ہائیں‘ احمد بولا‘ یہ منظر تو وہی ہے جو تم نے کل خواب میں دیکھا تھا۔ میں نے طنزاً کہا۔ وہی نا مطلب ہے کچھ مانوس سالگتا ہے۔ تم پہاڑوں کو نہیں جانتے۔ پہاڑ کے ہر منظر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک مانوس ایک انوکھا‘ میں نے اسے پہاڑی منظر پر لیکچر پلانا شروع کر دیا۔دو ایک گھنٹے سفر کرنے کے بعد وہ چلایا‘ ارے یار تم بالکل ٹھیک کہتے تھے اب یہ سامنے گاؤں دیکھو‘ دو گھنٹے ہوئے بالکل ایسے ہی گاؤں سے ہم گزر کر آئے ہیں۔ ہاں دیکھانا۔ میں نے اپنی بات کے ثبوت پر خوش ہو کر کہا۔ شام کے چھ بجے ہمیں ایک شہر دکھائی دیا۔ آہا‘ احمد چلایا۔ یہ دیکھو درختوں کی اوٹ میں شہر معلوم ہوتا ہے۔ بڑا خوبصورت شہر ہے۔ میں کہتا ہوں احمد بولا۔ یہ پہاڑی شہر بالکل ایک سے ہوتے ہیں۔ ہاں‘ میں نے کہا دیکھونا یہ چمبہ بھی ڈلہوزی ہی معلوم ہوتاہے۔ ہائیں …… احمد دروازے کو دیکھ کر رُک گیا ارے یہ تو اپنا گھر ہے۔اور ہم دونوں چپ چاپ گھر میں داخل ہو گئے۔ ہمیں گھر پہنچنے کی اس قدر خوشی ہوئی کہ چمبہ تو بالکل ہی ذہن سے اتر گیا ہے۔ چائے پیتے ہوئے احمد بولا‘ یار میں سوچتا ہوں اگر ہم گھر بھی نہ پہنچتے تو۔ یہی تو پہاڑوں کی خوبی ہے اور میں اُسے پہاڑوں کی یہ خوبی وضاحت سے سمجھانے لگا۔(ممتاز مفتی کی تحریروں سے اقتباس)