صدر پیوٹن پر الزامات

سولہ مارچ کو صدر بائیڈن نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوے کہا کہ ولادیمیر پیوٹن ایک War Criminal ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ اب صدر امریکہ روس کے صدر سے بات نہیں کر سکیں گے امریکی صدر اگر ایک مرتبہ کسی کو جنگی مجرم قرار دے دے تو اسکے بعد دونوں کے درمیان گفتگو کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں اب یوکرین جنگ کو ختم کرنے کیلئے نیٹو ممالک کو صدر پیوٹن سے خود بات کرنا ہو گی یا پھر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو صدر پیوٹن سے بات کرنا پڑیگی زیلنسکی کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر پیوٹن سے بات کرنے پر آمادہ ہیں مگر ماسکو کی طرف سے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔صدر بائیڈن کا روسی صدر کے خلاف بیان اسقدر اہمیت کا حامل تھا کہ امریکی صحافیوں نے صدر کے مشیروں سے رابطہ کر کے اسکی تفصیلات پوچھیں تو انہیں کہا گیا کہ صدر بائیڈن نے یوکرین میں بچوں کی لاشوں کو عمارتوں سے نکلتے ہوئے دیکھا اسکے علاوہ جنگ زدہ ملک کے کئی شہروں اور قصبوں میں جو تباہی اور بربادی ہوئی ہے اسکے بعد پیوٹن کو جنگی مجرم کہہ دینا کوئی بڑی بات نہیں جمعرات کے دن صدر بائیڈن نے پھر کہا کہ پیوٹن ایک Murderous Dictator, a pure thug who is waging an immoral war against the people of Ukraine  یعنی پیوٹن ایک قاتل ڈکٹیٹر اور خالص ٹھگ ہے جو یوکرین کے لوگوں کے خلاف ایک غیر اخلاقی جنگ لڑ رہا ہے اسکے بعد رہی سہی کسر سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے پوری کر دی انہوں نے کہا کہ ”میں اس بات سے متفق ہوں کہ معصوم شہریوں کو ارادتاً ہلاک کرنا ایک جنگی جرم ہے“۔
 پھر میڈیا نے پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا یہ امریکی حکومت کا ایک تزویراتی فیصلہ ہے یا صدر صاحب نے غصے میں ایسا کہہ دیا ہے اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ پاکر صحافیوں نے صدر امریکہ کے ان بیانات کا تجزیہ شروع کر دیا سینئر صحافی اور دفاعی تجزیہ کار David Sanger  نے اٹھارہ مارچ کے نیویارک ٹائمز کی فرنٹ پیج سٹوری میں لکھا ہے کہ صدر بائیڈن کے صدر پیوٹن کے خلاف یہ بیانات انتظامیہ کے اس کیس کو مضبوط کرتے ہیں جو انہوں نے یورپی ممالک کے سامنے رکھا ہے These statements support the administration's case as it tries to to keep the Westen alliance  unified ڈیوڈ سینگر نے صدر امریکہ کے اس رویے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ یورپی اتحادیوں کو یکجا رکھنے کیلئے پیوٹن کو وار کریمینل کہا گیا ہے یہ وضاحت جلد ہی غلط ثابت ہو گئی کیونکہ یورپی ممالک نے اس پالیسی کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوے کہا کہ اس الزام کے بعد اب پیوٹن کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہا اب وہ آگے ہی بڑھتا چلا جائیگا‘بعض مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ ماسکو میں Regime Change یعنی حکومت کی تبدیلی چاہتی ہے وائٹ ہاؤس نے اسکے جواب میں کہا ماسکو میں حکومت کی تبدیلی انکے ایجنڈے پر نہیں ہے مگر لوگ نہیں مان رہے اس سے پہلے جب بھی امریکی صدر نے کسی سربراہ مملکت کو جنگی مجرم کہا تو اسے برطرف کرنے کیلئے کوششیں بھی شروع کر دی گئیں۔
 عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قذافی کی حکومتوں کو اسی طرح ختم کیا گیا تھا شام میں بشار الاسد پر بھی یہی الزام لگایا گیا مگر صدر پیوٹن نے بشارلاسد کو امریکہ کے غیض و غضب سے بچا یا اب امریکہ اگر شام کے صدر کو باوجود کوشش کے Haig کے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکتا تو وہ پیوٹن کو کیسے جنگی مجرم بنا سکتا ہے لیکن امریکہ کوشش بہر حال کر رہا ہے ایکطرف پیوٹن یوکرین میں بری طرف پھنس چکا ہے ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی اسکی فوجوں کومیدان جنگ میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل نہیں ہوئی روسی فوج نےKyiv, Kharkiv, Mariupol, Odessa اور چند دوسرے شہروں کی ناکہ بندی کررکھی ہے مگر ان شہروں میں یوکرین کی فوج اور عوام ملکر اتنی شدید مزاحمت کر رہے ہیں کہ حملہ آوروں کو اندر داخل ہونے کا راستہ نہیں مل رہا امریکی میڈیا ایک طرف یہ کہہ رہا ہے کہ روسی فوج کا مورال ختم ہو چکا ہے اور اسلحے اور خوراک کی صحیح ترسیل نہ ہونیکی وجہ سے وہ بددل ہو چکے ہیں اور دوسری طرف یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ صدر پیوٹن ہزاروں سپاہیوں کی کمک بھیجنے کے علاوہ دور سے مار کرنے والے میزائل سسٹم بھی بھیج رہے ہیں۔
ملٹری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنگ کا پانسہ کسی بھی وقت پلٹ سکتا ہے کیونکہ کئی بڑے شہروں میں لاکھوں لوگ کئی دنوں سے پانی‘ خوراک‘ ادویات اور بجلی سے محروم ہیں اب اس جنگ کا جو فیصلہ بھی ہو صدر پیوٹن کاپلان اے بری طرح ناکام ہو چکا ہے انکا خیال تھا کہ وہ چند دنوں ہی میں یوکرین کے دارلخلافے Kyiv پر قبضہ کرکے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حکومت کو بر طرف کر دیں گے اور انکی جگہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کر دیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اب وہ اپنے پلان بی پر عمل کر رہے ہیں جسکا مقصد روس کی سرحدوں کے قریب یوکرین کے چند ساحلی شہروں پر قبضہ کرنا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ یوکرین کے دوسرے شہروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا ہے‘دوسری طرف صدر بائیڈن نے اگر چہ کہ براہ راست مذاکرات کے دروازے بند کر دئے ہیں مگر یورپی یونین اور یوکرین حکومت مسلسل ماسکو میں اعلیٰ حکام سے رابطے میں ہیں تا کہ جنگ بندی کا کوئی راستہ نکالا جائے صدر بائیڈن نے صدر پیوٹن پر جو الزامات لگائے ہیں انہیں غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوے ایک دفاعی مبصر نے کہا ہے کہ 1962 میں Cuban Missile Crisis  کے دوران دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھیں اسوقت صدر جان ایف کینیڈی نے صدر خروشیف پر الزامات لگانے کی بجائے انہیں واپسی کا راستہ دیا تھا اسوقت صدر کینیڈی نے کہا تھاWe have to give him something to step away موجودہ حالات میں بھی جو فیصلہ ہوا وہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ہی ہوگا ایک بڑی نیوکلیئرپاور کے سربراہ کو جنگی مجرم کہنا آسان بات نہیں۔