میں صالح محمدصدیق کی شاگردی میں لکھتا رہتا‘ میری دی ہوئی کچھ چیزیں چھپ جاتی تھیں‘ کچھ رک جاتی تھیں وہ تحریروں کو کاٹتے بہت تھے ظاہر ہے وہ ایک اچھے ایڈیٹر تھے اور قلم کے تیر بہت چلاتے تھے جس سے میں بڑا دلبرداشتہ ہوتا تھا اور میں یہ سمجھتا تھا اور ایک مقام پر میں یہ محسوس کرنے لگاکہ میں ایک رائٹر نہیں بن سکتا اورمجھے کچھ اور کام کرنا چاہئے اور میں کوئی اور نوکری کروں گا۔ کسی اور میدان میں اتروں گا۔ کامیاب ہو گیا تو اچھا نہ ہو سکا تو بھی کوئی بات نہیں انتہائی دلبرداشتہ تھا۔ جب گھر آتا تو میری ماں پوچھتی کہ”تو کچھ کھلتا نہیں ہے“ تو میں کہتا کہ ”کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے۔“ اور اس بات سے میری ماں بڑی پریشان ہوتی تھی کیونکہ میرے چہرے پر خوشی کے کم ہی آثار ہوتے تھے۔ طبیعت پر ایک بوجھ سارہتا تھا لیکن اتنا نہیں تھا جتنا ہمارے نوجوان نے ڈپریشن کے عالم میں اب ”سہیڑ“لیا ہے۔ہمارے اس اخبار میں ایک کاتب تھے وہ سرخیاں لکھا کرتے تھے ایک دن انہوں نے میری سلپ (جس پر رف خبر لکھی ہوئی ہوتی ہے) لیکر کہا کہ اشفاق صاحب میں آپ کی ہر تحریرکو بڑے شوق سے پڑھتا ہوں‘ اس لئے کہ آپ کی تحریر کی جو ابتدا(صحافتی زبان میں اس کو انٹرویو کہا جاتا ہے) ہوتی یہ بڑے کمال کی ہوتی ہے اس نے بحیثیت ایک قاری کے مجھے یہ کہا تھا ان کے چند الفاظ نے مجھے ”ری سائیکل“ کر دیا۔ چند دنوں کی بات ہے۔
میں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا کوئی ڈاکٹر تھے‘کمپیئر نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ کی زندگی کا کوئی بہت مشکل آپریشن تھا؟ تو انہوں نے کہا‘ ایک آپریشن بہت مشکل تھا جس نے بہت زیادہ وقت لیا اور میری بہت زیادہ توجہ لی اور میں بہت سٹپٹایا‘میں اپنے سرجری ہسپتال میں تھا کہ اچانک وہاں پر ایک اپاہج آدمی کوجو ابھی اپاہج ہوا تھا کوئی ایک آدھا گھنٹہ قبل اسے چارپائی پر ڈال کر لائے وہ ایک نوجوان تھا جس کی دونوں ٹانگیں ایک تیز دھار آلے سے کٹ گئی تھیں اور اسکے ساتھیوں نے اس کی رانوں پر بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے رومال یا کوئی رسیاں باندھی تھیں تاکہ جریان خون نہ ہو اور جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں حیران تھا کہ میں اس کا کیا کروں اس کے فوراً ہی بعد دو آدمی‘بھاگے بھاگے آئے اور انہوں نے کہا کہ جی اس کی دونوں ٹانگیں مل گئی ہیں مشین میں کام کرتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں ران سے نیچے کٹ کر دور جاگری تھیں تو یہ واقعہ اور یہ سانحہ گزرا تھا پاکستان سٹیل ملز میں ایک کوئی بڑا تیز چکر گھوم رہا تھا کٹاؤ دار جس میں وہ کام کرتے ہوئے قریب آیا تھا کسی کام کی غرض سے وہ مزدور بڑا ذہین‘بڑا قابل اور بہت سمجھدار تھا‘لیکن وہ ا سکی لپیٹ میں آگیا‘اور لپیٹ میں آتے ہی اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں اور بہت دور جاگریں اور اس کے ساتھیوں نے تلاش کرلیں اور وہ اس کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر آگئے تو ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ وہ میرے لئے بڑے امتحان کا وقت تھا میں اور میرے ساتھی اور میرے اسسٹنٹ میرے ساتھ لگے ہم کوئی مسلسل 18 گھنٹے اس پر کام کرتے رہے اور جب آپریشن ختم ہوا تو ہم ڈاکٹر بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے تو وہ جو اس کے ساتھ مزدور تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ جب ہم اس کو چار پائی پر لے کر چلے ہیں تو وہ صاحب جوتھے جن کا نام شکور تھا وہ تھوڑے سے ہوش میں تھے اس نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر کہا کہ مشین بند نہ کرنا‘اگر یہ مشین ایک دفعہ بند ہوگئی تو اسکے چلانے میں دس لاکھ کا خرچہ اٹھتا ہے تو اس مشین کو بالکل بند مت کرنا میں نہیں چاہتا کہ میرے ملک کو یا میرے اس کارخانے کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کے بعد وہ نیم بے ہوشی میں چلاگیا۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)