داستان عبرت

مجھے ایک بار لائٹ ہاؤس دیکھنے کا حسین اتفاق ہوا راتوں میں بحری جہازوں کو چٹانوں سے محفوظ یا باخبر رکھنے کے لئے سمندر میں خطرناک جگہوں پر لائٹ ہاؤس بنائے جاتے ہیں اور ان لائٹ ہاؤسز میں جو دیئے رکھے جاتے ہیں ان کے ارد گرد ایسا شیشہ لگا ہوتا ہے جو روشنی کو کئی سمت میں منعکس کرتا ہے یا آپ کہہ لیں کہ وہ شیشہ محدب (یہ گول اور بیچ سے ابھرا ہوا شیشہ ہوتا ہے)طرز کا ہوتا ہے خواتین وحضرات‘آپ یقین کریں کہ وہ لائٹ ہاؤس میں لگا چھوٹا سا دیا مٹی کے تیل یا کیروسین آئل سے جلتا ہے اور ان لائٹ ہاؤسز میں اسے جلانے کے لئے ملازم رکھا جاتا ہے جو اپنی ذمہ داری سے اسے سرشام روشن کردیتا ہے تاکہ جہاز بھٹک کر بھول سے کشی چٹان سے نہ ٹکرا جائیں وہ ایک چھنگلی جتنا دیا دیکھیں کتنے لوگوں کو درست سمت عطا کرتا ہے اس مٹی کے تیل کا موٹی بتی والا’دیوا‘ جو نہایت کم روشنی رکھتا ہے محدب شیشے کے باعث اس کی روشنی پچیس کلومیٹر تک دیکھی جاسکتی ہے وہ دیا ایک ایسی گھومنے والی چرخی پر ہوتا ہے جو مسلسل گھومتی رہتی ہے اور اس کے گھومنے سے اس کے گرد لگا محدب شیشہ پھر اس تھوڑی سی روشنی کی میلوں دور تک لے جاتا ہے اور یہ Reflect کرنے والے شیشوں کی بدولت ممکن ہوتا ہے اب جب میں اس ’دیوے‘کو دیکھ چکا ہوں اور آج کے وقت سے موازنہ نہ کرتا ہوں جیسے باہر والوں نے انفارمیشن کی صدی قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی میں علم اس طرح سے پھیلے گا تو بہت ساری باتیں ایک ایک کرکے میرے ذہن میں گزرتی ہیں کہ یہ علم کی روشنی کہاں سے کہاں تک پہنچے گی اور کیسے پہنچ گئی؟ یہ ساری بات میرے سامنے آگئی۔
کسی زمانے میں چین کا مشہور بادشاہ تھا ’منگ‘ ڈائنا سٹی کا اس نے اپنے وزیر کو ناراض ہوکے کسی وجہ سے پھانسی کی سزا دیدی مقررہ وقت پر جب اس کو پھانسی دی جانی تھی بادشاہ کا دستور تھا کہ جس قیدی کو بھی پھانسی دی جاتی تھی تو بادشاہ خود صبح سویرے اٹھ کر قید خانے میں آتا تھا اور اس سے پوچھتا تھا تیری کوئی آخری خواہش ہے تو میں اسکو پوری کرنے کی کوشش کروں گا‘ چنانچہ بادشاہ ایک خوب صورت گھوڑے پر سوارہوکر آیا اور اس نے اپنا گھوڑا بندی خانے کے باہر روکا‘ اور اندرگیا اپنے وزیر سے ملا وزیر سے کہنے لگا کہو کیا حال ہے کہنے لگامیں بڑا خوش وخرم ہوں آج شام مجھے پھانسی ملے گی اور اب آپ مل گئے اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے‘ اس نے کہا تم تگڑے ہو‘ہاں میں تگڑا ہوں لیکن ذرا بادشاہ سلامت آپ پیچھے ہٹ جائیں میں دیکھ رہا ہوں کہ چھوٹے سے جھروکے میں سے ایک نہایت خوبصورت سفید گھوڑا باہر بندھا ہے میں نے ایساگھوڑا کبھی دیکھا نہیں یہ تو اڑنے والاگھوڑا ہے‘چلنے والا نہیں بادشاہ نے کہا‘یہ تو میرا گھوڑا ہے سوار ہو کے آیا ہوں اس نے کہا‘ حضور یہ آپ کو کہاں سے مل گیا میں نے تو آپ کا سارا اصطبل دیکھا ہے بادشاہ نے کہا ابھی کچھ خراسان سے سودا گر آئے تھے‘ اور گھوڑا دے گئے ہیں وزیر نے کہا یہ تو کمال کی چیزہے۔
بادشاہ نے پوچھا لیکن یہ کیسے اڑے گا اس نے کہا‘ اس کو ٹریننگ دینی پڑیگی‘ بادشاہ نے پوچھا ٹریننگ کون دے؟ وزیر کہنے لگا میں دوں گا بادشاہ بولا کتنی دیر لگے لگی کہنے لگا ایک سال لگے گا آپ اس پر بیٹھیں گے جیسے بوئنگ جاتا ہے شکاگو سے ٹیکساس‘جدھر مرضی جائیں‘ گھوڑا اڑے گا کہنے لگے ٹھیک ہے‘کھول دو دروازہ باہر آجاؤ اور گھوڑے کی یہ باگ پکڑو تم اس کو ٹرینڈ کرو تمہیں ایک سال کے بعد پھانسی دی جائیگی‘ اس نے کہا منظور ہے وزیر گھوڑا لے کر چھلانگ مارکر اس کے اوپر بیٹھااور ایڑی لگا کے اپنے گھر پہنچ گیا اسکی بیوی نے چیخیں مارنا شروع کردیں‘ تو کیسے آگیا؟ تجھے تو پھانسی ہوگئی تھی اس نے کہا‘پروانہ کر یہ بات میں نے بادشاہ کے ساتھ کی ہے اب ایک سال کی چھٹی ہے‘ مزے کرتے ہیں گائیں گے‘خوش رہیں گے اس نے کہا‘ ایک سال ابھی ختم ہوجائے گا اور اس نے رونا شروع کردیا‘ وزیر گھوڑا لے کر صبح نکل جاتا‘اور مزے سے جوجو جگہیں نہیں دیکھی تھیں‘ وہ بھی دیکھیں اور اعلیٰ درجے کا اسے گھوڑا ملا ہوا تھا اور کیا چاہیے تھا چنانچہ وقت گزرتا رہا‘دن پر دن گزرتے رہے وہ روتی ہوئی بیوی کو کہتا‘ بھلی لوگ کچھ بھی ہوسکتا ہے تو کیوں فکرکرتی ہے اس نے کہا نہیں میرا جو فکر ہے اندر سے نہیں جائے گا‘وزیر خوش وخرم رہاخواتین وحضرات! ہوا یہ کہ تین مہینے بعد تینوں مرگئے بادشاہ‘وزیر‘ اور گھوڑا۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)