خدمت کا جذبہ

اگر آپ اپنی آنکھیں بالکل کھلی رکھیں۔ ماشاء اللہ کھلی رکھتے ہیں‘ کان بھی‘ تو آپکو اردگرد اتنی کہانیاں ملیں گی‘ جن کے اوپر آپ نے اس سے پہلے توجہ نہیں دی ہوگی۔ ہمارے استاد تھے پروفیسر غلام مصطفی تبسم صاحب‘ تو ہم سیانے تھے‘ میں ففتھ ائیر میں پڑھتاتھا ان کی ایک عادت تھی کہ جب کسی کی شادی ہوتی تھی نا‘ لڑکی کے گھر والوں میں‘ تو ان کے گھر جاکر بارات کو کھانا کھلانے کا بندوبست ان کے سر پر ہوتا تھا۔ تو صوفی صاحب نے ہم کو کہا کہ چلو بھئی فلاں گھر میں کھانا برتانا ہے‘دینا ہے‘ بارات آگئی ہے۔ مجھے یاد ہے ہم بھاٹی دروازے بتیاں والی سرکار کے پیچھے ایک گھر تھا‘ وہاں چلے گئے۔ انہوں نے کہا‘ لوجی صوفی صاحب آگئے‘ فکر کی کوئی بات نہیں‘ دیگیں آئیں۔ اب جو بارات تھی اس کے بارے خیال تھا کہ 80 کے قریب بندے ہوں گے‘ وہ 160 کے قریب آگئے‘اب صوفی صاحب کی آنکھیں‘ اگر آپ میں سے کسی کو یاد ہیں‘ ماشاء اللہ بہت موٹی تھیں‘ گھبرا گئے اور ان کے ماتھے پر پسینہ اور ناک پر بھی آجاتا تھا‘کہنے لگے‘ اشفاق ہن کیہہ کرئیے۔ میں نے کہا‘ پتا نہیں دیگوں میں پانی ڈال دیتے ہیں‘ پہلا موقع تھا۔ میں ففتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا‘ انہوں نے ایک تھپڑ مارامیرے منہ پر۔ زور سے‘کہنے لگے‘ بیوقوف آدمی اس میں پانی‘ ڈال کے مرنا ہے۔ وہ تو فوراً ختم ہو جائے گا۔ اس میں گھی کا پیپا ایک اور ڈالنا ہے۔ گاڑھا ہو جائے گا تو کھایا نہیں جاتا‘ اب ہم اندر سروے کررہے تھے اور صوفی صاحب بیچ میں سے نکال کے ڈالتے جاتے تھے‘ ہم باراتیوں سے کہتے اور لائیں‘ وہ کہتے تھے گرم لاؤجی۔ ہم تو بھاگے پھرتے تھے‘اب آخر کیفیت یہ آگئی کہ دیگیں ختم ہوگئیں اور ان کا چہرہ دیکھنے والا تھا وہ کانپ رہے تھے‘ اگر کسی نے اندر سے کہہ دیا کہ اور کاب بھیجیں‘ تو ان کے پاس دینے کیلئے صرف ایک رہ گئی تھی لیکن وہ ڈرے ہوئے تھے‘جب خوفزدہ تھے تو اندر سے آواز آئی بس۔ جب دوسرے بندے نے کہا‘بس جی صوفی صاحب‘تو صوفی صاحب کے ہاتھ میں جو پکڑا ہوتا تھا وہ گرا‘ اور اتنی شدت سے پیچھے گرے کہ وہ بڑا ساکڑھاؤ تھا‘ شکر ہے‘ انکے سر پر نہیں لگا تو ہم نے اٹھاکے ان کو بستر پر لٹایا اور ٹانگیں پاؤں دبائے۔ جب تلی مالش کی اٹھ کے بیٹھ گئے‘ میں نے کہا‘ ایسی ٹینشن کاکام آئندہ نہیں کرنا‘ کہنے لگے‘ نہیں بالکل نہیں‘ میری بھی توبہ۔ وہاں سے ہم چل پڑے‘ پیچھے ہم شاگرد‘ اب آگے آگے صوفی صاحب، کوئی پندرہ بیس گز سے زیادہ گئے ہوں گے۔ ایک مائی باہر نکلی‘ کہنے لگی‘ لو غلام مصطفی میں تو تینوں لبھ دی پھرنی آں۔ ”تاریخ رکھ دتی اے۔ تیرہ بھادوں دی کاکی دی“تو صوفی صاحب جو توبہ کرکے نکلے‘ کہنے لگے‘ کاغذ ہے‘ ہاں پنسل ہے۔ کہنے لگے‘ ہاں۔ لکھ تیرہ سیر گوشت ایک بوری چول صوفی صاحب لکھوا رہے ہیں تو میں نے کہا‘ جی یہ پھر ہوگا۔ کہنے لگے‘ نہیں یہ تو ان کی ضرورت ہے۔  (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)