میری نواسی کا بچہ باہر کوٹھی کے لان میں کھیل رہا تھا۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ باہر کھیل رہا ہے۔ میں اپنی نواسی سے باتیں کرتا رہا‘ اچانک دروازہ کھلا اور وہ بچہ مٹی میں لتھڑے ہوئے ہاتھوں اور کپڑوں پر کیچڑاور اسکے منہ پر”چھنچھیاں“ (خراب منہ اور بہتی ناک) لگی ہوئی تھی‘ وہ اندر آیا اور اس نے دونوں باز و محبت سے اوپر اٹھا کر کہا‘ امی مجھے ایک ”جپھی“ اور ڈالیں۔ پہلی ”جپھی“ ختم ہو گئی ہے تو میری نواسی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگالیا باوصف اس کے کہ وہ بچہ باہر کھیلتا رہا اور اس کے اندر وہ گرماہٹ اور حدت موجود رہی ہو گی جو اس سے ایک ”جپھی“ نے عطا کی ہو گی اور جب اس نے محسوس کی کہ مجھے اپنی بیٹری کوری چارج کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جھٹ سے اندر آ گیا۔فرانس کا ایک بہت بڑا رائٹر جسے میں دل و جان سے پسند کرتا ہوں وہ تقریباً تیس پینتیس برس تک فرانس سے غیر حاضر رہا اور جب وہ اس طویل غیر حاضری کے بعد لوٹ کر اپنے وطن آیا اور سیدھا اپنے اس محبوب گاؤں پہنچا جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ رائٹر کفسو کہتا ہے کہ جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو اس پر ایک عجیب طرح کی کیفیت طاری ہو گئی اور مجھے وہ سب چیزیں یاد آنے لگیں جو بچپن میں میں نے یہاں دیکھی تھیں۔کفسو کہتا ہے کہ ایک عجیب واقعہ اسے یاد آیا کہ ایک ندی کی چھوٹی سی پلی پر سے جب وہ گزرا کرتا تھا تو اس کے داہنے ہاتھ پتھروں کی ایک دیوار تھی جس پر غیر ارادی طور پر میں اپنی انگلیاں اور ہاتھ لگاتا ہوتا چلتا جا تا تھا اور وہ آٹھ دس فٹ لمبی دیوار میرے ہاتھ کے لمس اور میں اس کے لمس کو محسوس کرتا رہا۔
وہ کہنے لگا کہ میرا جی چاہا کہ میں اس پلی پر سے پھر سے گزروں اور اپنے بچن کی یاد کو ویسے ہی تازہ کروں لیکن جب میں نے دیوار پر ہاتھ رکھا تو میں نے اس لمس کو محسوس نہ کیا جووہ پتھر کی دیوار مجھے میرے بچپن میں عطا کیا کرتی تھی میں اس دیوار پر ہاتھ پھیرتا ہوا پورے کا پورا راستہ عبور کر گیا لیکن وہ محبت او ر چاہت جو پتھر کی دیوار اور میرے زندہ جسم کے درمیان تھی‘ وہ مجھے میسر نہ آسکی میں پھر پلٹا لوٹ کے پھر اسی طرح گزرا پھر میں اتنا جھکا جتنا اس زمانے میں میرا قد ہوتا تھا اورپھر میں نے اس پر ہاتھ رکھا او ر میں اس قد کے ساتھ جب میں چھٹی ساتویں میں پڑھتا تھا‘ چلا تو میں نے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے محسوس کیا اورمیرے دیوار کے لمس کیساتھ مجھے وہ سارا اپنا بچپن یاد آگیا۔ علم حاصل کرنے کیلئے جب ہم بھائی اپنے گاؤں سے لاہور آئے تو ہمارے اباجی نے ایک گھر لے کر دیا، فلیمنگ روڈ پر۔ وہاں اختر شیرانی رہتے تھے‘ میں تو چونکہ فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھا‘ اسلئے ان کے نام سے یاانکے کام سے اتنا آشنا نہیں تھا لیکن میرے بڑے بھائی ان کو جانتے تھے اور ان کی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے‘بہرحال جہاں ہمارے اباجی نے اور بہت ساری مہربانیاں کی تھیں‘ وہاں یہ کہ ایک خانساماں بھی دیا تھا جو ہمارا کھانا پکاتا تھا۔ اس کا نام عبدل تھا۔ عبدل کو زندگی میں دو شوق بڑے تھے‘ ایک تو انگریزی بولنے کا‘ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا جیسے آج کل بہت زیادہ انگریزی ہی کو علم سمجھا جاتا ہے اور انگریزی کے حصول کیلئے ہی جان لڑائی جاتی ہے۔ عبدل کو بھی اس کا بہت بڑا شوق تھا۔ دوسرے اس کو اچھی کنوینس کا بڑا چسکا تھا‘چنانچہ کبھی اسے بھائی خط پوسٹ کرنے کیلئے جی پی او بھیجتے تو وہ کہتا تھا، اگر آپ اپنی سائیکل دے دیں تو میں بڑی خوشی سے جاؤں گا اور بڑی خوشی سے آؤں گا۔
ان کی سائیکل کے قریب سے جب ہم گزرتے تھے سلام کرکے‘ لیکن ہم نے بھی اسے کبھی ہاتھ نہیں لگایا تھا تو عبدل پر وہ کبھی مہربان ضرور ہوتے تھے اور وہ سائیکل لے کر ان کا خط پوسٹ کرنے کیلئے فلیمنگ روڈ سے جی پی او جاتا تھا اور میرے حساب کے مطابق چار ساڑھے چارمنٹ میں واپس آجاتا تھا اور اس حالت میں کہ سانس اس کی پھولی ہوئی اور ماتھے پر پسینہ ہوتا تھا۔میں اس کی مستعدی سے بہت خوش تھا کہ یہ جو اپنی وہیکل ہے اس کو اتنے شوق سے اور اتنی مستعدی سے استعمال کرتا ہے۔ ایک مرتبہ اتفاق ایسا ہوا کہ میں نے دیکھا بازار میں وہ واپس آرہا تھا‘ جی پی او سے خط پوسٹ کرکے‘ اس طرح کہ سائیکل کے ساتھ بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا آرہا تھا۔ اس کے اوپر سوار نہیں تھا۔ تو میں نے اسے روک لیا‘ میں نے کہا‘عبدل یہ کیا کہنے لگا ”میں بھاجی دا خط پاکے آیاں تے جلدی واپس آیاں۔“ میں نے کہا تو سائیکل لے کر گیا تھا۔ کہنے لگا ہاں جی۔ تو میں نے کہا‘ اس پر سوار کیوں نہیں ہوا۔ کہنے لگا، عزت کی خاطر لے کر جاتا ہوں۔ سائیکل مجھے چلانی نہیں آتی۔ تو آج بھی تقریباً ہمارا معاملہ عبدل جیسا ہی ہے۔ (اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)