برطانیہ اگر دوسری جنگ عظیم ہار جاتا تو آج چرچل کا نام کسے یاد ہوتا‘یوکرین کا صدر زیلنسکی اگر اپنا ملک بچا بھی لے تو اسے کون یاد رکھے گا؟ یوکرین کے لوگ اور مؤرخین اسے ایک ہیرو سمجھیں گے مگر یورپ اور امریکہ کے لوگ بہت جلد اسے بھول جائیں گے برطانیہ ایک ایمپائر تھی اوروزیر اعظم ونسٹن چرچل ایک منجھا ہوا سیاستدان‘ شعلہ بیان مقرر اور عالمی شہرت یافتہ مدبر اور دانشور تھا جب وہ برطانیہ کا وزیر اعظم بنا تو اسے سیاست کرتے ہوے چار دہایاں ہو چکی تھیں ولادیمیر زیلنسکی ایک چھوٹے سے ملک کا صدر ہے اسنے ایک ٹیلیویژن کامیڈین کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اور ایک مختصر سیاسی کیرئر کے بعد صدر بن گیا دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے وقت چرچل کی عمر ستر برس کے قریب تھی جبکہ زیلنسکی کی عمر چوالیس سال ہے آٹھ مارچ کو زیلنسکی نے برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز سے خطاب کرتے ہوے چرچل کی اس یادگار تقریر کا ذکر کیا جو اسنے چار جون 1940 کو اسی قانون ساز ادارے میں کی تھی اس تقریر میں چرچل نے کہا تھا ”ہم دریاؤں اور سمندروں میں لڑیں گے ہم اعتماد اور طاقت کیساتھ فضا ؤں اور زمین پر لڑیں گے ہم اپنے جزیرے کا دفاع کریں گے خواہ ہمیں اسکی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانا پڑے ہم ساحل سمندر پر لڑیں گے ہم میدانوں میں لڑیں گے ہم کھیتوں اور کھلیانوں میں لڑیں گے ہم گلیوں اور بازاروں میں لڑیں گے ہم کبھی بھی ہتھیار نہ ڈالیں گے“ صدر زیلنسکی نے چرچل کی اس تقریر کا حوالہ دیتے ہوے کہا کہ یوکرین کے لوگ بھی جنگ جاری رکھیں گے ” ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے ہم شکست نہیں کھائیں گے ہم اپنی سر زمین کیلئے آخر دم تک لڑتے رہیں گے“۔
چرچل اور زیلنسکی کی تقاریر دو مختلف ادوار میں دو مختلف جنگوں کے دوران کی گئی تھیں برطانیہ ان دنوں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے مقابلے میں پسپا ہو رہا تھااسکے شہر جرمن فضائیہ کے نشانے کی زد پر تھے جرمن طیارے سکولوں‘ ہسپتالوں‘ مکانوں اور عمارتوں پر آتش و آہن برسا رہے تھے چرچل وائٹ ہال میں واقع اپنے دفتر کی چھت سے لندن پر بمباری کے مناظر دیکھا کرتا تھا چار جون 1940 کی تقریر کے چند ماہ بعدجرمن طیاروں نے اسکے دفتر کی عمارت کو تباہ کر دیا برطانیہ اتنی وسیع سلطنت تھی کہ اسمیں سورج غروب نہ ہوتا تھا چرچل برطانوی طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والا ایک عمر رسیدہ ممتاز سیاستدان تھا۔ ولادیمیر زیلنسکی اچانک یوکرین پر روس کے تباہ کن حملوں کی وجہ سے ایک ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک نے انہیں اپنی ضرورتوں کے تحت ایک عالمی قد کاٹھ کی شخصیت بنا دیا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ یوکرین کے کئی بڑے شہر اور قصبے ملبے کا ڈھیر بنا دئے گئے ہیں یوکرین کے چار ملین لوگ ہمسایہ ممالک میں جا چکے ہیں چھ ملین ملک کے اندر بے گھر ہو چکے ہیں ا س نقل مکانی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا انسانی المیہ کہا جا رہا ہے عراق اور افغانستان میں ہونیوالی تباہی اور بربادی کو یوکرین کے مقابلے میں بہت کم بتایا جا رہا ہے اب کیونکہ ”آدمی کوئی ہمارا دم تحریر نہ تھا“ اسلئے انکے بتائے ہوئے اعداد و شمار کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔چرچل اور زیلنسکی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ لندن کی عمارتیں جرمن ٹینکوں کی گولہ باری کی زد میں نہ تھیں جب کہ یوکرین کے دارلخلافے Kyiv پر آئے روز روسی ٹینک میزائل برساتے رہتے ہیں۔
برطانوی میڈیا نے کہا ہے کہ جب زیلنسکی ویڈیو لنک کے ذریعے برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز سے خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے اتنے پر اثر اور جذباتی انداز میں یوکرین کی تباہی کا نقشہ پیش کیا کہ کئی اراکین پارلیمنٹ آنسو پونچھتے ہوے نظر آئے ایک مقبول ٹیلیوژن آرٹسٹ ہونیکی وجہ سے زیلنسکی کو صوت وصدا کے فن سے شناسائی تو یقیناّّ ہو گی آواز کے لحن‘ لہجہ‘ زیر وبم اور آہنگ پر بھی انکی دسترس کا گمان کیا جا سکتا ہے چرچل کو بھی فن تقریر کے ان پہلوؤں پر عبور حاصل تھا لگتا ہے کہ زیلنسکی نے چرچل کی تقریروں کے مطالعے اور انہیں سننے کے بعد ہی برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا چرچل تحریر و تقریر میں نابغہ روزگار تھا تو زیلنسکی کو براڈ کاسٹ سیاسی انٹر ٹینمنٹ میں ملکہ حاصل ہے ایک بڑے ہجوم کے جذبات سے کھیلنے کیلئے سیاسی لیڈر کو فن تقریر کے تمام پہلوؤں سے آگاہ ہونا چاہئے مگر جوش جذبات کسی کام کا نہیں ہوتا اگر مقرر کے پاس دلائل‘ حقائق‘ واقعات اور ثبوت و شواہد پر مبنی ترتیب وار بیانیہ نہ ہوجنگیں سیاسی لیڈروں کو المناک حقائق کا ذخیرہ مہیا کر دیتی ہیں روز مرہ کے سیاسی اور سماجی مسائل کی سیاست کرنیوالے لیڈروں کو بڑی احتیاط سے عوامی جذبوں کے میدان میں اترنا پڑتا ہے اس زمین پر جھوٹ کی اینٹوں سے بنائے ہوے قلعے بہت جلد مسمار ہو جاتے ہیں۔چرچل نے دوسری جنگ عظیم جیت کر اپنا نام عظیم لیڈروں کی فہرست میں شامل کردیا اس جنگ کے دوران چرچل کو معلوم نہ تھا کہ اسکی کہانی کا اختتام کیا ہو گا۔ زیلنسکی کو بھی اپنا انجام معلوم نہیں۔روس کے میزائل اور ڈیتھ سکواڈ ہر وقت اسکے تعاقب میں رہتے ہیں۔جنگیں لڑنے والے لیڈر فتح و شکست کے تلاطم میں ڈوبتے اُبھرتے رہتے ہیں البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ زیلنسکی اگر اپنے ملک کو بچا لیتا ہے توصرف یوکرین ہی کے لوگ اسے ہیرو سمجھیں گے مغربی عوام تو شائد بہت جلد اسے مہنگائی کے کوہ گراں کا ذمہ دار ٹھہرانے لگیں۔وہ ایک چھوٹے ملک کا صدر ہے یورپی اور امریکی مؤرخین اسے آسانی سے نیلسن مینڈیلا جیسے رہنماؤں کی صف میں شامل نہیں کریں گے۔